تحریر: ابو الہاشم ربانی
پانی انسانی بقاء کے ساتھ ساتھ کائنات کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اہم ترین قدرت کا انمول عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”ہم نے ہر چیز کو پانی کے ذریعہ زندگی عطاء فرمائی ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تودرختوں کی سر سبزی نہ ہوتی اور نہ ہی پودوں کی کھلکھلاہٹ ہوتی۔ جس طرح پانی چشموں اور کنوئوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بارش کے پانی سے بھی ایک خلقِ کثیرمستفید ہوتی ہے۔
پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت کا مسئلہ تیزی سے سر اُٹھا رہا ہے۔ چند سالوں میں پانی کی کمی کل مجموعی طلب کے 50 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے ۔ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ یہاں بلوچستان اور تھرپارکر (سندھ) کے کئی علاقے ایسے بھی ہیںجہاں پینے کے کا پانی ہی نایاب ہے ۔ یہ علاقے سالہا سال تک خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔ 1947ء میں ہر پاکستانی کو فی کس پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ آج صرف ایک ہزار کیوبک میٹر دستیاب ہے۔ پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے اور اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو پانی کی یہ قلت روز بہ روز شدت اختیار کرتی جائے گی ۔ پانی کی کمی اسی طرح برقرار رہی تو پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک تصورہو گا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ملک میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، انہوں نے دعوے اور بیانات بھی داغے ۔ لیکن عملاًتربیلا اور منگلا ڈیم کے علاوہ کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ بنایا جاسکا۔جس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہر سال 30سے40ملین ایکڑفٹ پانی اوسطاً سمندر کی نذرہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک توانائی کے بحران کا بھی شکار ہے ، ہزاروں میگاواٹ تک بجلی کا شارٹ فال تاحال جاری ہے جس سے ملکی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے تو یہ وارننگ بھی دیدی ہے کہ جہاں موٹر ٹیوب ویل لگا کر باآسانی پانی نکل آتا ہے وہاں 20 سال بعد تھرجیسا نقشہ پیش آسکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ آنے والے سالوں میں پانی کا مسئلہ سنگین تر ہو گا اورصوبوں میں لڑائیاں پانی کے لئے ہوں گی۔خود وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے بھی گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئندہ نہ صرف پاکستان کو بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ پانی کی قلت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف بجلی بنے گی بلکہ اس میں ذخیرہ شدہ پانی ہماری زراعت و آبپاشی کی ضرورت کو بھی پورا کرے گا ۔ حکومت کواپنے وزیر کے بیان کی روشنی میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنی چاہیے۔ چھوٹے بڑے ڈیم بناکر سیلاب کے پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو ملکی آبی ضروریات کوپوراکرسکتے ہیں۔ آبی خودکفالت کے لئے ضروری ہے کہ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کو جتنی جلدی ہو سکے یقینی بنایا جائے۔ ان بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سے نا صرف زرعی مقاصد کے لئے بھرپور پانی دستیاب ہو گا بلکہ توانائی کا شعبہ بھی خود کفیل ہو سکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ،پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ، پارلمانی نظام میں ایوان زیریں کی 342 نشستوں میں سے حکومت بنانے کے لیے صرف 137 ارکان درکار ہوتے ہیں ۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس 173 ارکان تھے پھر بھی وہ ساڑھے چار سال تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے ۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حزب اختلاف کی ایک بڑی تعداد کے باجود بھی ایک حکومت بنائی جاسکتی ہے تو کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بن سکتا ۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن پر اختلاف ہونے کے باوجود بھی وہ کام ناگزیر ہوتے ہیں ۔ کالا باغ ڈیم ایک تکنیکی مسئلہ ہے نہ کہ سیاسی، تمام ماہرین اس بات پر متفق ہے کہ کالاباغ ڈیم ایک قابل عمل منصوبہ ہے اس کا کسی بھی طرح سے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ کالاباغ ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ جنوب میں بسنے والے پاکستانیوں کو ہے ۔ جس میں جنوبی پنجاب کے علاقے ، جنوب مشرقی خیبر پختونخواہ اور خاص طور پراندرون سندھ کے علاقے اس سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ کالا باغ ڈیم بننے سے سستی بجلی کا حصول ممکن ہے جس کے ذریعے نا صرف توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملکی معیشت بھی درست سمت گامزن ہو سکتی ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ آبی منصوبہ دشمن کی سازش کا شکار ہوچکا ہے، دشمن نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کوئی فوج کشی نہیں کی بلکہ ہمارے ہاں کے ہی کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر سیاست کرنا نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ دشمنان پاکستان کی ریشہ دوانیوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
دوسری جانب بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے لیے وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اُس نے پاکستان کے خلاف ہمہ جہت جنگ شروع کر رکھی ہے ۔ جموں کشمیر پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ کرکے اپنی آٹھ لاکھ دہشت گرد فوج کے ذریعے سے ظلم و جبر کی نئی نئی داستانیں رقم کرتا چلا جارہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنانے کی خوفناک منصوبہ بندی پر بھی عمل پیرا ہے۔پانی کے معاملے سے وہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوششوں پر عمل پیرا ہے ۔ ایک جانب وہ پاکستان کا پانی روک کر یہاں کی زراعت ، لائیوسٹاک اور معیشت کو نقصان پہنچارہا ہے جس سے پاکستان میں سنگین غذائی قلت پیدا ہوسکتی ہے ۔ بھارت کی آبی جارحیت سے دوسرا نقصان جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں صوبوں میں باہمی تصادم کا خطرہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور یہ لڑائی کسی بھی سنگین صورتحال کا موجب بن سکتی ہے۔
بھارتی آبی جارحیت سے پاکستان کی زراعت وصنعت شدید خطرات سے دوچار ہے۔وہ ہمارا پانی روک کر سال بھر اپنے ریگستانوں کو سیراب کرتا ہے ،جب بارشیں زیادہ ہوجائیں توبغیرکسی پیشگی اطلاع دیئے سیلابی پانی ہماری جانب چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں پچھلے پانچ برسوں سے سیلاب آ رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے دریائوں اور پانیوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔بھارت نے 102 ڈیموں سمیت سینکڑوں بجلی پیدا کرنیوالے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کئے ہیں جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔ پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں میں سے دریائے ستلج پر بھارت نے بھاکر ڈیم، دریائے راوی پر چمبر ڈیم، ہماچل پردیش کے ماندی ڈسٹرکٹ دریائے بیاس پر پانڈو ڈیم اسی دریا پہ پونگ ڈیم، پنجاب کے گورداسپور ڈسٹرکٹ میں دریائے بیاس پر رنجی ساگر ڈیم، شمالی ڈوڈا ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر بگلیہار، کشتوار ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر دستی ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، اس دریا پر سالال ہائیڈروک الیکٹرک پراجیکٹ،بارہ مولہ ڈسرکٹ میں یوری کے قریب دریائے جہلم پر یوری ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، دریائے جہلم پر ہی کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، دریائے چناب پر کرتھائی ڈیم، چناب پر ہی سوالگوٹ ڈیم پر پکڈل ڈی، ڈسرکٹ شیوپوری میں دریائے سندھ پر میدیکھیدا ڈیم سمیت ڈیم بنائے ہیں جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر التواء ہیں جن پر کام ہورہا ہے۔
بھارت دریائے سندھ کا 40 فیصد پانی ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے چوری کر کے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے۔ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہو گا جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ اس ڈیم سے انڈیا اسلام آباد پر واٹر بم گرانے کی ناپاک جسارت رکھتا ہے ۔ بھارت دریائے سندھ میں گرنیوالے ندی نالوں پر بھی 14 چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح دریائے جہلم سے ایک اور بگلیہار ڈیم سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جا رہی ہیں ،راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت ان سنگینیوں پہ تجاہل عارفانہ ہے۔
پانی کا عالمی دن پاکستان میں بھی منایا جا تا ہے ، حسب معمول یہ دن بھی ہر سال کی طرح بیانات میں گزر جائے گا۔ ہر نئے دن کے ساتھ عوام پانی کی مزید قلت کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ آبی ذخائر کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرے ، اس کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے وقت سے پہلے بندوبست کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر آفت سے بچائے۔آمین
تحریر: ابو الہاشم ربانی
(مسئول جماعة الدعوة لاہور ) @AbuAlhashim