لاہور (ویب ڈیسک ) بھارتی حکومت معصوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور کرفیو کو 15 روز بیت چکے ہیں تاہم مودی سرکارکی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے پیچھے چھپی اصل وجہ اور بھارتی حکومت کی نااہلی پہلی مرتبہ کھل کر سامنے آ گئی ہے جس کا تذکرہ سینئر صحافی حامد میرنے اپنی آج کی تحریر میں کیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی حامدمیر کا آج ” جنگ نیوز “ میں کالم شائع ہواہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ”14اگست 2019کو بھارتی اخبار ”دی ہند“ میں سوہاسنی حیدر نے لکھا ہے کہ 5 اگست کو مودی کے کشمیر ایڈونچر کے پیچھے بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ تھی کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان متوقع معاہدہ بھارت کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں 28ستمبر 2019کو افغانستان میں صدارتی الیکشن ملتوی ہو جائے گا۔ بھارتی حکومت اس الیکشن میں بیک وقت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت کم از کم 17ایسے امیدواروں کی مدد کر رہی ہے جو بھارت کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔ صدارتی الیکشن ملتوی ہونے سے کابل میں افغان طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا جو پاکستان کے زیادہ قریب ہیں۔ جس وقت مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مارشل لاءنافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آٹھواں راﺅنڈ جاری تھا۔ مذاکرات کا یہ راﺅنڈ 12اگست کی شام بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا کیونکہ عیدالاضحی آ گئی تھی۔ ان مذاکرات میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بہت کوشش کی کہ عیدالاضحی کے دن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنا کر کوئی خوشخبری دی جائے لیکن افغان طالبان نے کچھ اہم معاملات پر اپنی قیادت سے مشورے کے بغیر آمادگی سے معذوری ظاہر کی اور یوں بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ غلط نکلی کہ 3اگست کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں راﺅنڈ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ بھارتی انٹیلی جنس کی رپورٹ دراصل زلمے خلیل زاد کے اندازے پر مبنی تھی جو بھارتی حکومت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان میں مذاکرات ناکام نہیں ہوئے بلکہ کچھ تعطل کا شکار ہیں۔ افغان طالبان نے ایک بیان میں یہ واضح کیا کہ افغان مفاہمتی عمل کو کشمیر کی صورتحال سے نہ جوڑا جائے لیکن کیا کریں کہ بھارتی انٹیلی جنس نے افغان امن مذاکرات میں اپنی ناکامیاں تلاش کرکے مودی حکومت کو ایسے فیصلوں پر مجبور کر دیا جن پر دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے۔ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکام کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے، مسلسل 15 ویں روز بھی مقبوضہ وادی میں کرفیو اور دیگر پابندیاں برقرار ہیں، انٹرنیٹ سروس معطل ہے. کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سری نگر کا مصروف علاقہ لال چوک آج بھی ویران ہے جہاں سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے، بھارت مخالف احتجاج روکنے کے لیے جگہ جگہ بھارتی فوج تعینات ہے. کرفیو کے باوجود کشمیریوں کے بھارت مخالف مظاہرے جاری ہے، جو پاکستانی پرچم تھامے آزادی کے حق میں اور ”گو انڈیا گو“ کے نعرے لگا رہے ہیں. کشمیری شہریوں کے مطابق پورے دن میں کرفیو میں محض ایک گھنٹے کی نرمی سے شدید پریشانی کا سامنا ہے، وادی کی خراب صورتِ حال میں بچوں کو اسکول بھیجنا ناممکن ہو گیا ہے‘ادھر سینئر حریت راہنماﺅں سمیت مختلف سیاسی رہنما بھی بدستور نظر بند ہیں یا جیلوں میں قید ہیں. ادھر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے آسٹریلوی کالم نویس سی جے ورلیمن نے مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورت حال پر اپنی تحقیقی کالم میں انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ہولناک اعداد وشمار پیش کیئے ہیں.