تحریر : حنظلہ عماد
”ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں بیرونی حملہ آوروں سے شکست ہمارا مقدر ٹھہری۔ یہ حملہ آور کبھی شمال میں موجود کوہ ہندو کش کے راستے آئے اور کبھی جنوب میں موجود سمندر کے ذریعے۔ ”یہ الفاظ ریٹائرڈ بھارتی میجر جنرل خشونت سنگھ کے ہیں کہ جنھوں نے بھارت کی جانب سے 1945ئ، 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑیں۔ ان الفاظ کے علاوہ عمرانیات اور تاریخ کے طلبا اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ہندوستان ایسا خطہ ہے کہ جہاں کے لوگوں نے کبھی بیرونی حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت نہیں کی، بلکہ ہر آنے والے بیرونی حملہ آور کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اس کو اپنا آقا مان لیا۔ محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ فرشتہ کے مطابق اس کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب وسط ایشیا کی آریاء قومیں ہندوستان آکر بسنا شروع ہوئیں۔ چنانچہ انھوں نے یہاں کے لوگوں کو غلام بنایا اور انھیں ہندو کا نام دیا۔ ان کی زبان میںا س ہندو کے معنی کالا، چور اور غلام کے ہیں۔ تاریخ کے دیگر حوالے اس بات پر شاہد ہیں کہ جب بعد ازاں بیرونی حملہ آور آئے تو مزاحمت تب بھی محض ان لوگوں کی طرف سے کی گئی کہ جو ہندوستان کے مقامی نہ تھے بلکہ باہر سے آکر آباد ہوئے تھے۔ الغرض مندرجہ بالا شواہد کی بنیاد پر ہم یہ مفروضہ قائم کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی لوگوں کی فطرت میں غلامی کا خمیر ہے اور بہادری ان سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔
یہ فطرت آج کے حالیہ منظر نامے میں بھی جوں کی توں قائم ہے۔ بھارت کی فوج اور اس کی گیدڑ بھبھکیوں کو اگر نظر انداز کرتے ہوئے حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ بھارتی فوج تاحال اپنے پرکھوں کی روایت پر قائم ہے۔ یعنی بہادری سے کوسوں دور اور طاقتور دشمن کے سامنے بھیگی بلی بننا۔ یہی فلسفہ بھارت کے قدیم فلاسفر کوٹلیہ چانکیہ نے بھی ہندوئوں کو سکھلایا تھا کہ جس پر آج پوری بھارتی فوج عمل پیرا ہے کہ دشمن اگر کمزور ہے تو اسے خوب رگڑا دو اور اگر طاقتور ہے تو اس کے ساتھ دوستی گھا نٹو اورپیٹھ میں چھرا گھونپو۔ چنانچہ بھارتی فوج اس فلسفے پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔
1965ء میں بھارتی فوج نے جب اعداد کا اعتبار کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو کمتر جانا تو اس پر چڑھ دوڑی، مگر شرمناک شکست نے ایک تو پرانی شکست کی روایت کو تازہ کیا اور دوسرا بھارت کو یہ احساس دلایا کہ اعداد کے سوا بھی کچھ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کو برتری حاصل ہے۔ بھارتی یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ برتری ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کی برکت سے ہے۔ تاہم انھوں نے پاکستان کو طاقتور دشمن گردانتے ہوئے کوٹلیہ چانکیہ کے فلسفے کے دوسرے حصے پر عمل شروع کیا یعنی دوستی لگائو اور پیٹھ میں چھرا گھونپو۔ چنانچہ اس پر عمل کرتے ہوئے بھارت سرکار نے پاکستان کے ساتھ بظاہردوستی کی پینگیں بڑھائیں اور موقع پا کر پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا جس کی بنیاد پر ہمیں سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔
آج جب کہ بھارت میں نریندرا مودی جیسا متعصب ہندو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہے تو بھارت پر پھر سے عددی برتری کا خمار چھانے لگا ہے۔ اگرچہ بھارت ہی کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو بھارت کو خبردار کر رہی ہیں کہ یہ خمار صرف دھوکہ اور پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی جارحیت نقصان دہ ثابت ہو گی، لیکن مودی سرکار پاکستان کو دبانے اور دھونس جمانے کے لیے جنگ کی دھمکیاں لگانے میں مصروف ہے۔ بھارت ہی کے ایک مؤقر جریدے نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر بھارتی کمانڈوز کو پاکستان میں بھیجا گیا تو ایسی صورت میں ان کا واپس پلٹنا قطعاً غیر حتمی ہے۔ بھارت کے متعدد دفاعی تجزیہ نگار جو 1965ء میں بھارت کی درگت بنتی دیکھ چکے ہیں، وہ بھارت سرکار کو اس بات سے خبردار کر رہے ہیں کہ جنگ یا کسی بھی قسم کی مہم جوئی کی صورت میں نقصان ہمارا ہی ہو گا لہٰذا ہم باز رہیں تو بہتر ہے۔ یہاں تک کہ عالمی میڈیا بھی اس بات سے واقف ہے کہ کون سا ملک اس معاملے میں سبقت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک کثیر الاشاعت عالمی شہرت یافتہ اخبار نے اپنے اداریے میں اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ اگر بھارت پاکستان سے جنگ کرے تو نقصان بھارت ہی کا ہو گا چنانچہ بھارت جنگ سے باز رہے۔
ان سب یاد دہانیوں کے باوجود بھارت سرکار اس زعم میں ہے کہ وہ پاکستان سے برتر ہیں چنانچہ وہ کسی بھی جنگ کو جیتنے یا مہم کو سرکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ بھارت نے اس وقت سرحد پر صورتحال کشیدہ کررکھی ہے اور آئے روز سرحدی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیالکوٹ اور دیگر سرحدی علاقوں میں بھارت کی جانب سے مسلسل شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پاک فوج کی جانب سے بھی اس کا بھرپور جواب جاری ہے۔ چنانچہ بھارت اس وقت ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔جنگ اگرچہ مہلک ہے لیکن اگر بھارت کو یہ شوق چرایا اور اس نے ایسی کوئی شرارت کی تو ایسی صورت میں پاکستان کے پاس دفاع کی کیا صلاحیت ہے اور بھارت کے ساتھ ہمارا موازنہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
دفاعی بجٹ:
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا دفاعی بجٹ 7.8 بلین ڈالر ہے جبکہ بھارت کا دفاعی بجٹ 42.84بلین ڈالر ہے۔ دفاعی بجٹ میں اس قدر تفاوت کی ایک وجہ بھارت کی ایک ارب آبادی کا پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کے ساتھ موازنہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف 2001ء میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں بارڈ پر لا کھڑی کیں تو اس وقت بھی پاکستان کی فوج نے بھارت سے کہیں زیادہ چستی کے ساتھ اپنے بھاری ہتھیار سرحدوں پر پہنچا دیے تھے۔ اس پر بھارت کو خفت اٹھانا پڑی کہ اس کی فوج نقل و حرکت میں سست ہے۔ چنانچہ اس وقت دفاعی بجٹ میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا کہ بھارت کی فوج تیزی میں پاکستان کے ہم پلہ ہو سکے۔
بری فوج :
بھارت کے پاس اس وقت حاضر سروس 11 لاکھ 29 ہزار 900 فوجی ہیں جبکہ 9 لاکھ 60 ہزار فوجی محفوظ فوج کا حصہ ہیں۔ بھارت میں نیم فوجی دستے تقریبا تیرہ لاکھ افراد پر مشتمل ہیں۔ بھارت کی بری فوج کے پاس موجود ہتھیاروں پر نظر دوڑائی جائے تو اعداد کچھ یوں ہیں:T72 ٹینک 2414، T90 ٹینک807، ارجن MHZ ٹینک 248،T55ٹینک550۔ جبکہ پاکستان کے پاس سب سے اہم الخالد ٹینک ہے جس کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ T80کے 320 ٹینک، الضرار T852 اور T69 ٹینک، امریکی ساخت M485 اے نامی ٹینکوں کی تعداد 345جبکہ T55 اور T54 ٹینک بھی ہیں۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ بھارتی ٹینک زیادہ تر روسی ساختہ اور پرانی ٹیکنالوجی کے حامل ہیںجبکہ پاکستان کے پاس جدید ترین الخالد اور الضرار ٹینک ہیں جو پاکستان نے خود تیار کیے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی میں جدید ترین صلاحیت کے حامل ہیں۔ یوں عدد میں کم ہونے کے باوجود پاکستان کا پلڑا بھاری ہے۔
اگرمیزائلوں کی بات کی جائے تو بلا مبالغہ پاکستان بھارت تو کجا پوری دنیا میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں پاکستان نے النصر میزائل اور براق ڈرون کا تجربہ کیا جو کہ پاکستان کے اپنے تیار کردہ ہیں۔ بھارتی ماہرین کے مطابق یہ جنوبی ایشیا کے خطرناک ترین ہتھیار ہیں جبکہ آئے روز بھارتی میزائلوں کے ناکام ہونے والے تجربے ان کی میزائل ٹیکنالوجی کی قلعی کھولنے کے لیے یہ کافی ہیں۔
پاکستان انڈیا
میزائل کا نام
رینج
میزائل کا نام
رینج
نصر۔ حتف
100km, 60km
پرتھوی۔1
150km
غزنوی شاہین اور غوری
200سے
1500kmتک
پرتھوی۔2
250km
غوری۔2
1800km
اگنیTDI
1500km
شاہین۔2
200km
اگنیII
2000km
شاہین۔3
2750km
بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان 7000 کلو میٹر والے بین البراعظمی میزائل کی تیاری کے حتمی مراحل میں ہے۔ جبکہ مندرجہ بالا میزائل ہی پورے بھارت کو نشانہ بنانے پر قادر ہیں۔فضائیہ: فضائیہ کی بات کی جائے تو یہاں بھی عدددی اعتبار سے اگرچہ بھارت برتر ہے کہ1370 طیارے رکھتا ہے اور اس کی فضائیہ دنیا کی بڑی ائیر فورس میں شامل ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر طیارے فرسودہ اور پرانی دقیانوسی روسی ٹیکنالوجی کے حامل ہیں کہ جو اب متروک ہو چکی ہے۔ چنانچہ بھارت اب بڑے پیمانے پر طیارے خریدنے کے معاہدے کر رہا ہے۔دوسری طرف پاکستان کے پاس 506 جنگی طیارے ہیں۔ ان میں جدید ترین F-16 اور جے ایف 17 تھنڈر جیسے طیارے شامل ہیں کہ جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوا چکے ہیں۔ 1965ء میں پاکستان کے ایک ہوا باز ایم ایم عالم نے لمحوں میں بھارتی فضائیہ کے پانچ طیارے مار گرائے تھے جبکہ آج پاکستان کے پاس کہیں جدید ٹیکنالوجی کے حامل طیارے موجود ہیں۔ اگر بھارت سرکار کو منہ کی کھانے کا شوق ہے تو وہ اپنی حسرت پوری کر سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا ہی کے مطابق اس کی فضائیہ کو ”بیمار فضائیہ” کا لقب مل چکا ہے جس کے اکثر طیارے ناکارہ ہیں۔
بحریہ :
پاکستان اور بھارت کی بحریہ کا جائزہ لیا جائے تو عددی اعتبار سے بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز، 15 فریگیٹ، 11 ایٹمی آبدوزیں، 140 روایتی آبدوزیں، 24 چھوٹے جنگی جہاز، 30 گشتی جہاز اور بارودی سرنگ شکن جہاز ہیں۔ پاکستانی بحریہ کے پاس 5 فریگیٹ جہاز، 88 آبدوزیں، 12 گشتی و حملہ آور جہاز اور 3 بارودی سرنگ شکن جہاز ہیں جبکہ ایٹمی آبدوز سعد بن ابی وقاس کے نام سے ہے۔
اگرچہ بھارت عددی اعتبار سے برتر ہے لیکن ماضی کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو 1965ء میں پاکستان نے کہیں کم ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے بھی بھارت کو دن میں تارے دکھا دیے تھے لیکن آج جب پاکستان بھارت سے ٹیکنالوجی اور کئی اعتبار سے بہت بہتر ہے تو بھارت یہ جان سکتا ہے کہ کسی شرارت کے نتیجے میں اس کا انجام کیا ہو گا۔ چنانچہ بھارت کو چاہیے کہ پر امن طریقے سے تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرے وگرنہ بقول شاعر
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
تحریر : حنظلہ عماد