تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
اس میں شک نہیں کہ مضبوط پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی حفاظت کا نگہبان ہوتا مگر پاکستان جس ویژن پر بنا تھا اور جس کی آبیاری کی بنیاد پر بھارت کے مسلمانوں کا پشتی بان ہو سکتا تھا اُس ویژن کو قائد اعظمکے بعد پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ قائد اعظم کا ویژن یہ تھا جو انہوں نے٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا۔
ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” قائد کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظامِ زندگی نافذ کیا گیا جو پاکستان کو متحد اور مضبوط بنا سکتا تھا نہ وقت پر آئین بنایا گیا اور نہ ہی قائد اعظم کی مسلم لیگ اپنے آپ کو مضبوط بنا سکی کہ وہ یہ کام کرتی بلکہ اب تو بقول شخصے الف سے ی تک اس کی شاخیں بن چکی ہیں۔شاید اسی لئے قائد نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بہر حال وقت گذرتا گیا اور بھارت کے مسلمان ہندوئوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے کچھ مدت تک تو پاکستان کے اخبارات مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ بر تائو پر اپنے طور پر احتجاج کرتے رہے جس میں پاکستان کا سب سے بڑا اخبارہمیشہ پیش پیش رہتاتھا مگر اب جب وہ پرنٹ کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا میں بھی ٹاپ پرتھا اس پر دولت اور جھوٹی ناموری کی ہوس سوار ہوئی۔
امن کی آشا جیسے پروگرام شروع کئے اور بھارت کے مظلوم مسلما نوں کے لیے احتجاج کر نا تو درکنار ان کو بھول ہی گیا۔ ملک کی مسلح افواج کے ایک اہم جنرل کے خلاف اس کی تصویر لگاکر جھوٹی خبر آٹھ گھنٹے تک نشر کرتا رہا۔ نظریہ پاکستان پر قائم رہنے والے پاکستانی اخبارات اب بھی بھارت کے مسلمانوں پر مظالم پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔پاکستانی حکمران تو دو قومی نظریہ بھول ہی گئے اور وہ آلو پیاز کی باتوں میں دل بہلاتے رہتے ہیںاور گذشتہ پاک بھارت مذاکرات میں پاکستان کے کور ایشو کشمیر کا ذکر کرنے کی بھی جرأت نہ کر سکے اور اپنے اوپر دہشت گردی کاجھوٹا لیبل سجاتے واپس پاکستان آئے۔ بظاہر تو پاکستان میں٢٠١٣ء کے الیکشن میں یہ جیتے ہیں مگر نہ جانے کون سی نا معلوم طاقت نے تیسری بار انہیں ٣٢ مجارٹی دلا دی تاکہ وہ اُس نا معلوم طاقت کے ایجنڈے پر کام کریں۔الیکشن سے کچھ دن پہلے امریکہ کے سفیر کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ پاکستان کی بڑی پارٹیوں نے انہیںانشورنس دلائی ہے کہ وہ الیکشن میں امریکہ مخالف باتیں زیر بحث نہیں لائیں گیں بلکہ روشن پاکستان کی باتیں کریں گے۔
الیکشن کے نتائج سے کچھ وقت پہلے نواز شریف صاحب کے منہ سے یہ جملے نکلے تھے کہ مجھے٣٢ مجارٹی چاہیے۔تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلوقات میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر دبائو ڈالا رکھا ہے کہ بھارت کو بڑا مان لے، دو قومی نظریہ کو بھول جائے۔ کشمیر کا معاملہ بھی بھول جائے۔ بھارت میں پاکستان جتنے مسلمان آباد نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔امریکہ نے پاکستان میں ہمیشہ دو قومی نظریہ کی مخالف جماعتوں کی مدد کی ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کو کبھی بھی مقبولیت نہیں رہی اور سروے رپورٹز ٨٠فی صد مخالفت ریکارڈ کرتی رہیں۔
اللہ بھلا کرے پاکستان کی فوجی قیادت کا، پاکستان کی خاموش اکثریت کی نمائندگی کرتے ہوئے اُس نے بھارت کو آنکھیں دکھائیں اور کشمیر کو پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا کہا بھارت کی طرف سے کولڈ اور گرم تعقب پر جواب کے لئے تیار رہنے کی باتیں کیں۔ جہاں تک بھارت کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ٧٠ سال سے سیکولر
پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتے رہے ہیں سیکولرپارٹیاںان کے ووٹ سے جیت کر ان کے مسائل سے پہلو تہی کرتی رہیں۔ گورنمنٹ میںاُن کی آبادی کے مطابق نوکریاں نہیں دی جاتیں۔ جب وہ کاروبار کرتے ہیں تو ان کی دوکانوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔دہشت گرد مودی نے صوبے کا سربراہ ہوتے ہوئے ٢٥٠٠ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا تھااسی مسلمان دشمنی پر ہندووں نے اُسے بھارت کا وزیر اعظم بنا دیا یعنی دو قومی نظریہ کو زندہ کر دیا اورسیکولروں کو شکست دے دی۔بھارت کے سیکولر آئین کے باوجود مسلمانوں کواِن کے مذہبی روایات کے مطابق زندگی گزرانے کی سہولت نہیں دی جاتی۔ مساجد کو ڈھایا جا رہا ہے۔
تاریخی بابری مسجد کو ڈھا دیا گیا وہاں پر مندر بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔”گھر واپسی” کے نام پر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ذبردستی کوششیں کی جاتی ہیں۔یوگا اورسوریانمسکار کے معاملے میں مسلمانوںکی غیرت کو للکارا جاتا ہے۔ان حالات میں صوبہ حیدر آبادسے ایک پارٹی کل ہند مجلس اتحاد مسلمین(ایم آئی ایم) مسلمانوں کے حقوق کی نمایندہ بن کر اُبھری ہے۔ اس کے سربراہ بیرسٹرجناب اسدالدین اویسی صاحب بھارت کے مسلمانوں کو اپنے بل پر انتخابات لڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ان کے بھائی اکبر مسلم مسائل پر اتنی بے باکی سے بولتے ہیں کہ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک سمجھنے والی سیکولر پارٹیاں کے لیڈر بغلیںجھانکنے لگے ہیں۔مسلمانوں کے عقائد پر پابندی لگنے پر دونوں بھائی نے ہندوئوں کو للکارا۔یعقوب میمن کی پھانسی کے خلاف بھی کھل کر بولے۔مسلمان نوجوان ان کو اپنا نمائندہ مانتے ہیں ان کی بات سنتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔یو ٹیوب پر پڑی ہوئی اویسی بردران کی تقریریں ڈاون لوڈ کرتے ہیں ان کو شیئر کرتے ہیں یہ تقریریں دور دراز تک سنی جاتی ہیں۔
کل ہند مجلس اتحاد مسلمین جو عرف عام میںایم آئی ایم کے نام سے مشہور ہوئی ہے نے٢٠١٧ء کے انتخابات میں اپنے دم خم کے ساتھ اترنے کا اعلان کیا ہے۔سیکولر پارٹیوں کی نیندیں اڑ رہی ہیں۔ان کا روایتی مسلم ووٹ بینک منتشر ہوسکتا ہے۔اتر پردیش میںحکومت عوامی سطح پر میٹنگیں،جلسے اور ریلیاں نکالنے کی اجازت نہیں دے رہی جس پرایم آئی ایم کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے عدالت کا درواز ہ کھٹکھٹایا ہے۔ایم آئی ایم کا نعرہ ہے”جے میم اورجے بھیم” مسلم ووٹ کے ساتھ ساتھ دولت ووٹ میں بھی نقب لگ سکتا ہے۔ایم آئی ایم بنیادی طور پر حیدر آباد کی پارٹی ہے جو ١٩٧٤ء سے لیکر اب تک حیدر آباد کی لوک سبھا کی سیٹ پر قابض رہی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر بولنے پر بھارت کی سب پارٹیاں ایم آئی ایم کی مخالف ہیں۔ کانگریس کی پریتی سندے نے ایم آئی ایم کو غدار پارٹی کہااور اس پر پابندی لگانے کا کہا۔ راشٹریہ جنتا دل کے لالو پرساد یادو نے کہا آر آر ایس ایم آئی ایم کو فنڈ دیتی ہے۔ سیکولر پارٹیوں نے ایم آئی ایم کو بی جے کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ شیوسینا کے سنجے رادت ایم آئی ایم کو سانپ اور اویسی برادران کا سنپو قرار دیتے ہیں۔وشو ہندو پریشد کے پروین تو گڑیا تو اویسی بی جے پی کا کتا کہتے ہیں۔ بی جے پی کے ساکشی مہاراج اویسی کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔
ہندو مہا سبھا نے اویسی کا سرکاٹ کر لانے والے کو دس لاکھ روپے دینے کااعلان کر دیا ہے۔بھارت کی سیاسی پارٹیوں نے اویسی کو ہرانے کے لیے مسلم لیڈروں کو الرٹ کر دیا ہے۔اویسی مسلم ووٹ کے ساتھ ساتھ دلت ووٹوں کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں۔ان کے جے میم اور جے بھیم کے نعرے نے حیدر آباد کے ساتھ مہاراشٹر میں بھی کافی شہرت حاصل کر لی ہے۔مہارشٹر میں اسمبلی کی دو سیٹوں کے علاوہ اورنگ آباد کے بلدیاتی انتخاب میں ایم آئی ایم نے سیکنڈ لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری ہے اور یہ پوزیشن مسلم دولت ووٹوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔مسلم نوجوان کہتے ہیںکہ انہیں ایسا لیڈر چاہیے جو کھل کر مسلمانوںکے مسائل بیان کرے اور ان کو حل کرے۔اسد الدین اویسی مسلم مسائل کی ترجمانی کرنے والے لیڈر ہیں۔ حکومت وقت سے آئین و قانون کی روشنی میں حق مانگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یو ٹیوپ پر ان کی تقریریں سنی جاتی ہیں اور شیئر کی جاتی ہیں۔
قارئین! ہم نے بھارت کی اخبارات سے بھارت میں اُبھرتی ہوئی ایک مسلم پارٹی ایم آئی ایم کی کہانی سنائی ہے اگر مسلمان اور دولت بھارت میں یک جان ہو جائیں تو دونوں کی مشکلات دور ہو سکتیں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کٹر ہندو ذہن رکھنے والی پارٹیوں کی ناجائز مخالفت کی داستان سنانے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ امت مسلمہ کے بھارتی حصے کی ممکنہ کامیابی کو آپ کے ساتھ شیئر کروں ۔اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین۔
تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کاکمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)