تحریر: علی عمران شاہین
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ مسائل کے حوالے سے جو 4نکات پیش کئے، دنیا نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی پذیرائی کی۔ بھارت پاکستانی وزیراعظم کے اس مؤقف اور مہم سے جس قدر بوکھلایا، اس کا اظہار بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے پہلے بھارتی میڈیا کے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ سے بھی بخوبی ہوا۔ بھارتی میڈیا نے جہاں پاکستانی وزیراعظم پر الزامات کی بھی بوچھاڑ کی، وہیں پاکستان کو امن مخالف بھی قرار دیا۔
سشما سوراج نے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اس سے بھارت خود بھی ایک تماشا ضرور بنا۔ جنرل اسمبلی کے اس سالانہ اجلاس میں بھارت کو ایک بہت بڑی ہزیمت اس کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کے خواب کے بکھرنے سے بھی اٹھانی پڑی۔ بھارت طویل عرصہ سے اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح وہ سلامتی کونسل کا چھٹا مستقل رکن اور پھر ویٹو پاور بن جائے۔ اس کیلئے بھارت نے طویل سفارتی مہم میں خود کودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت باور کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جس وقت ساری دنیا بھارت کی کشمیر سمیت دیگرحل طلب مسائل پر ہٹ دھرمی دیکھ رہی تھی، اس وقت پاک آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف برطانیہ کے دورے میں برطانوی حکومت کو رگیدنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر رہے تھے۔
اس سے پہلے پاکستانی حکومتوں یا دیگر شخصیات کو اس بات کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ وہ برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک کی اس حوالے سے بازپرس کر سکیں کہ وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہر روز دم توڑتی شورش اور بغاوت کی مدد کیوں کر رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں ہی وہ بلوچ باغی رہنما پناہ گزین ہیں جو صوبے کے لوگوں کو باہر کی دنیا سے پیسے لے کر لڑنے پر اکساتے ہیں۔ انہیں وہاں ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں۔ یہ ممالک ان کی ہر ممکن مدد بھی کرتے ہیں۔ یہ دنیا کے ہر قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ لیکن پاکستان چونکہ کمزور ملک سمجھا جاتا ہے اور یہ ممالک خود کو دنیا کے اصل مالک سمجھتے ہیں، لہٰذا ان کا خیال ہے کہ ہم جو چاہیں کریں، ہمیں تو کوئی پوچھ نہیں سکتا، لیکن اب کی بار پہلی مرتبہ یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ہمارے ملک کے مقتدر ترین حلقے اور حکام ان قوتوں کی اس حوالے سے بازپرس کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے کھل کر کہا ہے کہ یورپی ممالک کو ایسی پالیسیاں ترک کرنا ہوں گی اور اگر دنیا برصغیر میں امن چاہتی ہے تو مسئلہ کشمیر حل کرنا پڑے گا۔
مسئلہ کشمیر اصل میں تو برطانیہ ہی کا کاشت کردہ زہریلا پودا ہے جو اس نے یہاں سے جاتے ہوئے بویا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت چونکہ ہندوئوں کی انگریزوں سے مکمل ساز باز ہو چکی تھی اس لئے انہوںنے تقسیم کے وقت ایسی لکیریں کھینچیں جن سے پاکستان ہمیشہ کیلئے بھارت کے زیرنگیں رکھا جا سکتا تھا۔ یہ توپاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ اتنی خوفناک سازشی تقسیم کے باوجود وہ نہ صرف قائم ہے بلکہ اب بھارت کے مقابلے کی قوت ہی نہیں، ایک عالمی ایٹمی اور میزائل قوت ہے۔ چاہئے تو یہ کہ ہم برطانیہ پر ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ دبائو ڈالیں کہ وہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا مکمل کرانے یعنی مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا پورا کردار ادا کرے۔ ویسے تو ان قوتوں سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن جب ان قوتوں کے مفاد دوسروںسے وابستہ ہو جائیں تو وہ ہر بات ماننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان قوتوں کی اس وقت سب سے بڑی مجبوری اور پریشانی افغانستان ہے جہاں وہ 14سال تک پہاڑوں سے سر ٹکراتے رہے لیکن بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد جب وہ رسوا کن انداز میں سرپٹ اپنے ملکوں کو بھاگے تو ان کے دشمن یعنی افغان قوم نے اپنے ملک میں ایک بار پھر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیئے۔ قندوز کی فتح اور افغانستان کے اکثرو بیشترحصوں کا افغانستان کی امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہونا اس سب کا عملی ثبوت ہے۔ اگر افغانستان کا دارالحکومت کابل جو دنیا کے محفوظ ترین علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، ان افغان مجاہدین کے حملوں اور یلغاروں سے محفوظ نہیں تو ملک کا کون سا علاقہ محفوظ ہو گا۔ انہی لوگوں نے اپنی کامیابیوں کے بیج جلال آباد ایئرپورٹ پر امریکہ کا جنگی طیارہ بھی تباہ کر کے دکھا دیا ہے۔
امریکہ سمیت اس کے سارے اتحادی خصوصاً برطانیہ اچھی طرح جانتا ہے کہ افغانستان کے ”کمبل” سے ان کی جان پاکستان کے بغیر نہیں چھوٹ سکتی اور یہ کہ افغانستان کا مستقبل اور حکومت وہی ہو گی جو پاکستان چاہے گا۔ لہٰذا ہم گزارش کریں گے کہ ان مغربی قوتوں کیلئے افغانستان کے اس منظر نامے میں حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لئے کردار مانگا جائے۔ اگر یہ قوتیں ہمارے مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو انہیں ہم بھی ٹھینگا دکھا سکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت اللہ کے خصوصی فضل و کرم سے اس پوزیشن میں ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کو اپنے مسائل خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے پر راضی کر سکتا ہے۔ ہمارے لئے یہ بھی خوش قسمتی کی بات ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلم امہ کی دو اہم ترین اور بڑی طاقتوں سعودی عرب اور ترکی نے ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب بحرین کی بیرونی شہ پر ابھرنے والی شورش پر بزوربازو قابو پانے کے بعد اب یمن کی جنگ میں عظیم الشان فاتحانہ کردار ادا کر چکا ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں کے پاس کس قدر اندرونی و بیرونی طاقت تھی لیکن 85سال کی تاریخ میں پہلی جنگ میں سعودیہ نے انتہائی کامیابی سے یمن آپریشن تکمیل کے قریب کر کے دکھا دیا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ آج بھی سعودی قوم لڑنا، جنگ کرنا اور فتح حاصل کرنا بھی جانتی ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں کے ہاتھوں سینکڑوں سعودی شہری اور فوجی جوان شہید ہوئے۔
سعودی فوج نے بہادری کی نئی تاریخ یوں رقم کی کہ ان کے اعلیٰ ترین عہدیدار اگلے مورچوں پر سپاہیوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ اسی لئے ان کے دو جنرل بھی شہید ہوئے۔ یوں فتح کے جذبے سے سرشار عرب بلکہ آج کے عالم اسلام کے حقیقی قائد سعودی عرب کی بھی ہمیں پوری حمایت حاصل ہے، جسے ہم نے اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔ سعودی عرب کی حمایت کا مطلب عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے بڑے حصے کی حمایت ہے۔ پاکستان کے کشمیر پر موجودہ دلیرانہ موقف کو کشمیری قوم اور حریت قیادت نے بھرپور طریقے سے سراہا ہے۔ اگر کشمیری قوم ہمارے مؤقف سے مطمئن ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہماری پالیسی درست سمت میں چل رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک عرصہ کے بعد سرد خانے سے نکل کر عالمی سطح پر سامنے آیا ہے اور اس کے پیچھے کشمیریوں کے خون کی قربانیاں بھی ہیں۔ وہ جانوں پر کھیل کر پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستان سے محبت و یگانگت کا ایسا اظہار کر رہے ہیں کہ جس کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر کشمیری ہمارے ساتھ کھڑے ہیں تو ہمیں ان کے مسئلہ کو اٹھانے میں اب کسی پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے۔
عرب دنیا خصوصاً متحدہ عرب امارات کو جو ہم سے گلہ شکوہ ہوا، اسے دور کرنے کا سامان کیا جانا چاہئے۔ ہم بھارت کے ساتھ اس وقت تک کسی دوستی، تجارت یا تعلقات کے روادار نہیں ہو سکتے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اسی سطح پر آ کر بات چیت نہیں کرتا جس کا وعدہ اس نے 1948ء میں خود اقوام متحدہ میں کر رکھا ہے۔ سو اس سارے پس منظراور پیش منظر میں یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ عرصہ بعد پاکستان نے ہر سطح پر مسئلہ کشمیر کا مسئلہ گرما دیا ہے۔ اب اس گرم لوہے کو ایسی ہی زوردار اور مسلسل ضربوں کی ضرورت ہے کہ جیسی ضربیں بھٹی میں لوہا تپا کر اسے مار کر نئی مشکل دی جاتی ہے۔ ہماری ایسی ضربوں سے اب سے کشمیری قوم کی قربانیوں کو ثمر بار کرنے میں مدد ملے گیا۔
تحریر: علی عمران شاہین