نئی دہلی: پاکستان اور بھارت کی معروف خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی کتاب کے شائع ہونے کے بعد بھارت میں پاکستان کے لیے نئی دہلی کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جبکہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارت کے ریسرچ اینالسز ونگز (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب کی اشاعت کے بعد بھارت میں اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کشمیر میں سفاکانہ کارروائیاں بند کرے۔
ڈان اخبار کی کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پرتنفید کے لیے مشہور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کشمیر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام ہے۔
کتاب کے اجراء کی تقریب میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور سابق نائب صدر حامد انصاری مہمان خصوصی تھے، جس سے یہ تقریب حزب اختلاف کے اتحاد کا منظر پیش کرنے لگی۔
تقریب میں شریک کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بتایا کہ وہ اپوزیشن کے سابق وزرائے اعلیٰ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جارہے تھے تاہم اس کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر اس تقریب میں آگئے۔
واضح رہے کہ ’را، آئی ایس آئی: اینڈ دا الوژن آف پیس‘ نامی کتاب میں زیادہ تر دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس موقع پر ایک ویڈیو ریکارڈنگ پیغام میں لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا کہنا تھا کہ مجھے ویزا نہ ملنا بھی ایک طرح سے مہربانی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کتاب ایس اے دولت کا آئیڈیا تھی، تاہم کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ کتاب سنسنی خیز انکشافات پر مبنی ہوگی۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے بتایا کہ اکتوبر 2014 میں دہلی کے دورے کے دوران ان کی ملاقات حامد انصاری سے ہوئی تھی جس کے بعد ایک تفصیلی ملاقات میں کتاب میں شمولیت کے امکانات روشن ہوئے، اس وقت بھارت کے نائب صدر حامد انصاری نے مجھ سے سوال کیا کہ ’کہ یہ دیوانگی کب ختم ہوگی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بولے گئے اس ایک جملے نے مجھے اس کتاب میں حصہ لینے پر مجبور کردیا۔
مصنف ایس اے دولت نے کتاب پر ہونے والی اس تنفید کو رد کردیا کہ ان کی کتاب میں بھارت اور پاکستان کے درمیان قیام امن کو محض ایک خوبصورت خیال سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ 2019 کے انتخابات سے قبل دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت ہوگی۔
تقریب کی میزبان برکھا دت کے جنرل باجوہ کو مدعو کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی سے ان کی ملاقات طے کی جاسکتی ہے، جبکہ امکان ہے کہ وزیراعظم بھی ان سے ملاقات کریں۔
اے ایس دولت کا مزید کہنا تھا کہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں اسوقت سول حکومت کمزور ہے اس لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مذاکرات کے لیے کس سے رابطہ کیا جائے۔