تحریر : علی عمران شاہین
بھارت ایک ایسا عجیب ملک ہے جو دوسرے ممالک سے فیصلے بھی اپنے مرضی کے چاہتا ہے تو ان کے خلاف خفیہ اور علانیہ دشمنانہ حرکتوں سے بھی باز نہیں آتا۔گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان سے تجارت بڑھانے کا انحصار اس کی جانب سے ہمیں پسندیدہ قوم قرار دینے کے فیصلے پر ہے۔ ہم نے پاکستان کو اور پاکستان نے ہمیں دستاویزی طور پر 1996ء میں تجارت کیلئے پسندیدہ قوم قرار دے دیا تھا لیکن پاکستان نے اس کے بعد اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ بھارت کے صنعت و حرفت کے مرکزی وزیر نرملاستما رامدن نے کہا کہ فی الحال اس معاملے پر نہ کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں اور نہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے۔ جس دن بھارت کی جانب سے یہ بیان آیا، اسی روز خبر آئی کہ بھارت نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے لوگوں کو اپنے ہاں سرحدی شہر امرتسر سے آگے جانے یا کسی اور شہر میں نمائش لگانے یا تجارتی تعلقات بڑھانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کا یہ تجارتی وفد پچھلے کافی عرصہ سے بھارت جانے کی تیاری میں تھا لیکن بھارت نے انہیں ویزے دینے سے ہی انکار کر دیا، یوں بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے پاکستان میں سب سے زیادہ متحرک بے چین و بے قرار اداروں میں سے ایک یعنی لاہور چیمبر آف کامرس نے بھارت کے دورے کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔
ان خبروں کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ بھارت نے پاکستانی زراعت کو تباہ کرنے کیلئے عالمی سطح پر بڑی منظم مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت بھارت نے اپنے زرعی مصنوعات کے ایکسپورٹرز کو سبسڈی دے کر یورپ، دیگر عرب و افریقہ اور مشرق بعید کے ملکوں میں سستا چاول اور سستی گندم بھیج دی ہے اور یوں وہ تمام ممالک جو پہلے پاکستان سے یہ سب کچھ خریدتے تھے اب بھارت سے یہ سب خرید رہے ہیں اور پاکستانی زرعی مصنوعات کے برآمدکنندگان کے ساتھ ساتھ تاجر اور کسان بڑی تباہی سے دوچار ہیں۔ چاول کی فصل کا سیزن چل رہا ہے لیکن سیلاب سے بچ جانے والی چاول کی فصل اب بیرون ملک نہیں بھیجی جا سکتی جس سے شعبہ زراعت ایک بڑے امتحان سے دوچار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری منصوبہ بندی سے پاکستان کے ہی راستے افغانستان کو گندم کی سپلائی بھی شروع کرا رکھی ہے جس سے اول دن سے پاکستانی گندم پر سوفیصد انحصار کرنے والا افغانستان اب پاکستانی گندم کی خریداری سے انکاری ہے اور پاکستانی گندم اور آٹا برآمد کرنے والے تاجر اور مل مالکان بھی نئے امتحان اور مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پاکستان کی کپاس کی پیداوار اور برامد کو مکمل برباد کرنے کے لئے بھار ت نے اپنی کاٹن پر تمام ٹیکس ختم کر دیئے ہیں جس سے اس کی قیمت گر گئی ہے اور اب پاکستان کپاس جس کی حالت پہلے ہی دگر گوں تھی ایک نئے بحران سے دوچار ہو گئی ہے۔بھارت نے تجارت و معیشت کے معاملے پر جس طرح پاکستان کو پوری حکمت عملی کے ساتھ چاروں شانے چت گرانے کا کام شروع کر رکھا ہے وہ پریشان کن ہے اور فکر انگیز بھی… بھارت یہ تو کہتا ہے کہ اس نے پاکستان کو 1996ء میں پسندیدہ تجارتی قوم کا درجہ دے دیا تھا لیکن اس نے ہمیشہ کوشش یہی کی ہے کہ وہ پاکستان سے کم سے کم خریداری اور درآمدات کرے اور زیادہ سے زیادہ مال اور مصنوعات پاکستان کو برآمد کرے۔ اسی یک طرفہ تجارت کا نتیجہ سامنے ہے کہ اب تک پاکستان نے بھارت کے ساتھ جس قدر تجارت کی ہے، اس کے نتیجے میں ہی ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کا تناسب کبھی بھی ایک اور پانچ سے کم نہیں رہا۔
پاکستان میں کچھ عقل سے پیدل اور سمجھ بوجھ سے عاری ایسے ”دانشور” بھی موجود ہیں جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ جس قدر تجارت کی جائے گی، فائدہ پاکستان کا ہو گا کیونکہ پاکستان کو اپنے سے سات گنا بڑی مارکیٹ میسر آئے گی۔ یہ لوگ کسی طور پر آستین کے سانپ سے کم نہیں ہیں جو قوم کو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور جنہیں گزشتہ 18سالہ یک طرفہ تجارت، بھارتی پالیسیاں اور پاکستان کا مسلسل بڑھتا معاشی تجارتی نقصان قطعاً نظر نہیں آتا۔ بھارت چار اطراف سے پاکستان کو زک پہنچانے اور تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لوگ اس کے ساتھ پیارومحبت کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ اس وقت تک تجارت کا خیال دل سے نکال دیا جائے جب تک وہ ہمارے ساتھ بنیادی جھگڑے اور مسائل حل نہیں کرتا اور تجارت کے معاملے میں بیرونی دنیا میں پاکستان کے خلاف وہ اپنی گھٹیا اور کمینی حرکتیں بند نہیں کر دیتا اور باہم تجارت کو کم از کم متوازن نہیں بنا لیتا۔
دوسری طرفمقبوضہ جموں کشمیر میں مجاہدین نے بھارتی فوج کے خلاف اچانک اپنے حملوں میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں کے آرینہ سیکٹر میں تین مجاہدین نے بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر کے ایک کرنل سمیت کئی فوجی ہلاک جبکہ کئی زخمی کر دیئے۔ مجاہدین کا یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ بھارتی فوج مقابلے میں پہلی بار ٹینک لے کر آئی جبکہ 3 ہیلی کاپٹروں سے لاشیں اور زخمی اٹھاتی رہی۔ جس سے حقیقی جانی نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس معرکے کے بعد اگلا سب سے بڑا معرکہ ضلع بارہ مولہ کے علاقہ اوڑی میں ہوا جہاں فدائیوں نے بھارتی کیمپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ معرکے میں ایک کرنل، ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر سمیت بہت سے فوجی ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ اسی روز 5دیگر مقامات حتیٰ کہ سرینگر کے عین مرکز لال چوک جہاں ہر وقت ہزاروں فوجی موجود ہوتے ہیں، میں بھی گرنیڈ حملہ ہوا۔ اوڑی سیکٹر کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی گونج بھارتی ایوانوں میں پہنچ چکی ہے اور بھارت سارے عالم میں اس پر سہارا اور دلاسہ دینے والا بھی کوئی نہیں۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا ہے جس کی دنیا میں کسی نے مذمت نہیں کی کیونکہ اس میں نشانہ بننے والے 100فیصد بھارتی فوجی افسران اور سپاہی تھے۔
بھارت یہ بھی مانتا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت شہید ہونے والے مجاہدین وہاں کے مقامی نوجوان ہیں جن کی مکمل شناخت بھی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان کے خون کی یہ آواز ”صدا بصحرا” ہی ہے۔ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ کشمیری قوم کس طرح آزادی کیلئے اپنے بیٹے پیش کر رہی ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ بھارت کافی عرصہ سے اس بات کا دعویدار تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی ختم ہو چکی ہے لیکن اس دعوے کے باوجود نہ تو وہ اب تک اپنا ایک فوجی بھی واپس بلا سکا ہے اور نہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی مرضی کے معمولی مخالف چلنے کا خطرہ رکھنے والے میڈیا یا مبصرین کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ بھارت نے خطہ کشمیر کو دو حصوں میں ہمیشہ کیلئے تقسیم کرنے کے ارادے سے کنٹرول لائن پر جس قدر جنگی انتظامات کر رکھے ہیں وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن وہ پھر بھی الزام پاکستان پر دھرتا ہے۔ بھارت کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ اس کا باپ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے ذلت و عبرت کا نشانہ بن کر نکل چکے ہیں تو اب اسے کوئی تباہی سے نہیں بچا سکے گا۔ مجاہدین نے پلٹ کر پھر سے جھپٹ کر ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کے پاس مہلت بہت کم ہے۔بھارت ان حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے دن رات الزامات عائد کر رہا ہے۔لیکن کیا وہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس کی فوج پر حملوں میں شہید ہونے والے نوجوان تو وہاں کے مقامی ہیں۔ان نوجوانوں کو لڑنے اور مرنے کے لئے کیا پاکستان مجبور کرتا ہے۔بھارت نے آخر کیوں حریت قیادت کا ایک زمانے سے ناطقہ بند کر کے رکھا ہوا ہے۔بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چایئے کیونکہ اس کے پاس مہلت کم ہے ۔ اس مہلت سے وہ جتنا جلدی فائدہ اٹھائے، اس کیلئے بہتر ہو گا۔
تحریر : علی عمران شاہین