جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو اورمرکزی آفس برلنMCBیورپ کے مطابق٥ فروری ٢٠١٦ء کو شام ٥ بجے سفارتخانہء پاکستان برلن میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقعہ پرایک تقریب منعقد ہوئی،جس میں کشمیر کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔اس تقریب میںعالمی سطح پر مشہور و معروف یورپی ایشین صحافی و شاعر، چیف کوآرڈینیٹرپاکستان عوامی تحریکPATیورپ،ورلڈ چیرمین کشمیر فورم انٹرنیشنلKFI ، چیرمین ایشین جرمن رفاہی سوسائٹیAGRS ،محمد شکیل چغتائی نے ناسازی طبع کے باوجودخصوصی طور پر شرکت کی اوراس موقعہ کے لئے کہا گیاکلام شرکاء کی خدمت میں پیش کیا۔
دیگر مقررین میں محمدعنصربٹ،طارق محمود اعوان،محمد صدیق کیانی اور سہیل انور خان شامل تھے۔نظامت سجاد حیدر خان،HOCسفارتخانہء پاکستان نے فرمائی، صدارتی خطبہ سفیر پاکستان جوہر سلیم کا تھا۔شکیل چغتائی کی درخواست پرشہدائے کشمیر، دہشت گردی کے شکار شہدائ،خصوصاً APS،باچا خان یونیورسٹی اور کوئٹہ کے علاوہ PIAکے احتجاجی مزدور شہداء کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور انکے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔
تقریب کے دوران چغتائی صاحب کو پاکستان کے نئے سفیربرائے جرمنی جوہر سلیم؛میونخ سے تشریف لانے والے صدرجرمن پاکستان فورم DPF ڈاکٹر سعید چوہدری؛پاکستان سے تشریف لانے والے مسلم لیگی رہنما محمد ریاض خان؛ریجنل سربراہDPFبرلن،وزیر حسین ملک؛ سابق امیراسلامی تحریک برلن اور سابق صدرکشمیر فورم خالد محمود؛ منہاج القرآن انٹرنیشنل جرمنی کے سابق صدر فیض احمد،MQIبرلن کے نائب صدرطارق جاوید اور جنرل سکریٹری محمد ارشاد؛PML (ن) جرمنی کے سینئر نائب صدرآصف محمود شاہ،PML (ن) برلن کے صدرمحمداعجاز بٹ،PML (ن)جرمنی کے چیف آرگنائزر یوتھ ونگ محمد عنصر بٹ؛ایڈیٹر سہ ماہی دستک، برلن ، رخسار احمد انجم؛ چیف ایڈیٹرویب اخبار پاکبان انٹرنیشنل، ظہور احمد، سفارتخانہ کے اعلیٰ اہلکار، سفارتی عملہ اور دیگر افراد سے ملاقات کا موقعہ ملا۔
سب نے انکی مزاج پرسی کی اوردعائے صحت سے نوازا۔انکے کلام کی بہت تعریف ہوئی اور اسے کشمیری مجاہدین کے دل کی آواز قرار دیا گیا۔اپنا انٹرنیشنل کی وساطت سے یہ کلام، جو دو نظمیہ غزلوں پر مشتمل ہے،قارئین کی تفرح طبع کے لئے حاضر ہے:
بھارتی افواج کی دھمکیاں
بس ایک جرم پہ کاٹی تری زباں ہم نے
بغاوتوں کو کیا گزری داستاں ہم نے
تجھے نہ گھر سے نکلنے کی پھر اجازت دی
بنایا گھر میں ترے قید کا سماں ہم نے
جوتونے خواب میں دنیا نئی بسائی تھی
اسے مٹا کے بنایا ہے یہ جہاں ہم نے
بلک رہے تھے اگرخوف سے ترے بچے
تو روئی ٹھونس لی کانوں کے درمیاں ہم نے
نہ کوئی آہ بھرے او ر نہ کوئی بین کرے
یہ حکم دے کے ختم کی ہے ہر فغاں ہم نے
تجھے عزیز بہت تھی وطن کی آزادی
توپھانسی گھاٹ پہ لٹکا دئے جواں ہم نے
پلا کے بادہء مستی تجھے کیا مدہوش
ہے تجھ سے چھین لی شمشیر اور سناں ہم نے
ہماری طاقت و قوت سے تو نہیں واقف
سکھایا تجھ کو سبق ہی بھلا کہاں ہم نے
جسے تو خون شہیداں کا نام دیتا ہے
اسی لہو سے یہ دریا کیا رواں ہم نے
دکھائے راہ تو انجم مگررہے ناکام
اکھیڑ پھینکا ہے منزل کا ہر نشاں ہم نے
مجاہدین کشمیر کی للکار
ہم اپنے خوں سے اسے لالہ زار کر لیں گے
خزاں کے رنگ بدل کر بہار کرلیں گے
ہمارا عزم سلامت ہے دیکھ لینا تو
شکستہ پا ہیں مگر تجھ پہ وار کرلیں گے
تو مارتا رہے ہر روز ہم کو چن چن کر
ہم اپنی جان وطن پر نثار کر لیں گے
جگہ جگہ جو بچھائے ہیں جال تو نے یہاں
انہی شکنجوں کا تجھ کو شکار کر لیں گے
اجاڑ دیں گے تراتخت و تاج ہم اک دن
تجھے مٹا کے چمن میں نکھار کر لیں گے
ہمیں عزیز ہے اتنی وطن کی آزادی
کہ پھانسیوں کو گلے کا سنگھار کر لیں گے
گزر تو جائیں گے ہم جاں سے دیکھ لینا مگر
تجھے بھی موت سے ہم آشکار کر لیں گے
تمہارے خون سے سیراب ہو گی یہ مٹی
تمہارے خوں سے اسے داغدار کر لیں گے
کھچی ہوئی ہے کماں ، تیر ہے نشانہ پر
تمہارے دل سے اسے آر پار کر لیں گے
تمہارا ظلم وستم بڑھ گیا تو کیا غم ہے
اسے نصیب کا لکھا شمار کر لیں گے
نئے سرے سے رقم ہو گی پھر الف لیلہ
شب ستم کے ہی قصے ہزار کر لیں گے
مٹا کے ظلمت شب چاند بنکے ابھریں گے
گلی گلی یہاں روشن دیار کرلیں گے
کریں گے ذکر شہیدان قوم پھرانجم
ہر ایک آنکھ کو پھر اشکبار کر لیں گے
پرنس انجم بلوچستانی