بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ حل کرنے میں ثالثی کی امریکی صدر ٹرمپ کی پیشکش پرنئی دہلی نے گوکہ ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس معاملے میں امریکا کی ثالثی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
دوسری طرف بھارتی دفاعی ماہرین نے چین کے رویے میں پیدا ہونے والی نرمی پر بھی اس وقت تک کوئی خاص توجہ نہیں دینے پر زور دیا جب تک کہ زمینی حقائق میں واضح تبدیلی دکھائی نہ دے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کہا تھا کہ وہ بھارت اور چین کے درمیان پچھلے کئی ہفتوں سے جاری سرحدی تنازعے کو حل کرنے میں ثالثی کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا” ہم بھارت اور چین دونوں کو آگاہ کرچکے ہیں کہ موجودہ سرحدی تنازع پر امریکا مصالحت یا ثالثی کے لیے خواہاں اور اہلیت رکھتا ہے اور تیار ہے۔“
صدر ٹرمپ کے مذکورہ ٹوئٹ پر بھارت اور چین دونوں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے میڈیا کی درخواست کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ دفاعی اور سفارتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت اور چین دونوں ہی اپنے اپنے تنازعات میں کسی بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتے رہے ہیں اس لیے وہ صدر ٹرمپ کی تجویز کو منظور نہیں کریں گے۔
دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ بریگیڈیئر راہول بھونسلے کا اس حوالے سے کہنا تھا” بھارت اورچین کے درمیان موجودہ تنازعہ میں امریکا کی ثالثی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہمیں ان کی ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکا اور چین کے تعلقات کے بارے میں ہر ایک کو پتہ ہے کہ وہ اس وقت کتنے خراب ہیں اورایسے میں یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بیجنگ امریکا کی ثالثی کوپسند کرے گا۔“
بریگیڈیئر راہول بھونسلے نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس جولائی میں بھی صدر ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا رول ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے یہ تجویز وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی دی ہے۔ لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے اس کی واضح طور پر تردید کردی تھی کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔ راہول بھونسلے کے خیال میں بھارت او رچین کے درمیان ثالثی کی جوتجویز صدر ٹرمپ نے پیش کی ہے اس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ ان کے گھریلو سیاست کا معاملہ ہو کیوں کہ امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔یہ امر قابل ذکرہے کہ بھارت اورچین کے درمیان لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پرپچھلے کئی ہفتوں سے جاری کشیدگی کے درمیان چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ روز چینی افواج کو حکم دیا تھا کہ وہ جنگ کے لیے مضبوط تیاری شروع کردیں اور انتہائی بدترین، پیچیدہ اور پریشان کن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان سے فوراً اورموثر انداز میں نمٹنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر، چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارت اور چین کے درمیان جاری تنازعے پر پاکستان نے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا مگر بھارتی میڈیا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اس میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ کرکے مودی حکومت پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار ہندوتوا نسل پرست سوچ پر کاربند ہے جس کے علاقائی توسیعی عزائم ہیں۔ عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مودی حکومت کو ماضی کی انتہا پسند نازی جرمن پارٹی کی سوچ سے تشبیہہ دیا ہے اور بھارت کی پالیسیوں کو تمام ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ معاملہ اب پرسکون ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھار ت میں چین کے سفیر سون وائی ڈانگ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہمیں اس بنیادی فیصلے پر عمل کرنا چاہیے کہ چین او ربھارت کے پاس ایک دوسرے کے لیے مواقع ہیں اور ہم ایک دوسرے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ترقی کو صحیح طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی باہمی اسٹریٹیجک اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔“ اس سے قبل چین کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ”مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سرحدی علاقوں میں صورتحال مستحکم ہے، سرحدی امور پر بات چیت کے لیے میکنزم موجود ہے اور فریقین متعلقہ امور بات چیت اور مشاورت سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔“
چین کے رویے میں نرمی کو حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی وزیر اعظم مودی کی قائدانہ صلاحیت کا سبب قرار دے رہی ہے۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”نریندر مودی کے بھارت کو کوئی بھی آنکھ نہیں دکھا سکتا۔“
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ چین کے رویے میں نرمی اور چینی سفیر کے بیانات پر اس وقت تک زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں جب تک کہ زمینی سطح پر حقیقی تبدیلی نہ ہوجائے اور جب تک چینی فوج ایل اے سی سے واپس چلی نہ جائیں۔
یہ امرقابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن پربھارت اور چین نے اپنی اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ہاتھا پائی اور مارپیٹ کے متعدد واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ چینی فوج کے ذریعہ بھارتی نیم فوجی دستے کے جوانوں کو حراست میں لینے کی خبریں بھی آئی تھیں لیکن بھارت نے ان کی تردید کردی۔ بھارتی میڈیا نے سیٹلائٹ تصویروں کے ثبوت کے ساتھ دعوی کیا ہے کہ چین لداخ کے قریب ایک ایئر بیس کی توسیع کررہا ہے اور اس نے وہاں جنگی طیارے بھی تعینات کردیے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت اور چین میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے۔ چین بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزارمربع کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے حکام درجنوں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔