تحریر: علی عمران شاہین
بھارت نے ایک بار پھر سیالکوٹ کے سرحدی علاقوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے بیسیوں پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا۔ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پاک آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف شمالی وزیرستان سے سیدھے سیالکوٹ پہنچے۔ زخمیوں کی تیمارداری کی اور رینجرز ہیڈ کوارٹرز پہنچ کراپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ بھارت کو سخت پیغام دیا تو حکومیت عہدیدداران بھی میدان میں کود پڑے۔قبل ازیں پاکستان اور بھارت کے 23 اگست کے مذاکرات منسوخ ہوئے۔ اس کی وجہ واضح تھی۔
بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کا نام بھی نہ لے اور بھارت کی مرضی کے مطابق اس کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرتا چلا جائے۔ روس کے شہر اوفا میں ڈیڑھ ماہ قبل کی نواز مودی ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا تھا اس پر بھارت نے ہمیشہ کی طرح چالاکی اور عیاری سے مسئلہ کشمیر کو سرے سے ہی خارج کر دیا تھا۔ جب پاکستانی میڈیا کے کچھ حصے اور محب وطن طبقات نے اس جانب توجہ مبذول کروائی تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے فوری وضاحت کی کہ بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوں گے، کشمیر کے بغیر کبھی نہیں ہوں گے۔ بھارت اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ اوفا اعلامیہ میں جب کشمیر کا ذکر نہیں تو 23اگست کی نئی دہلی ملاقات میں کشمیر زیربحث نہیں آئے گا۔ پاکستان نے حسب روایت مذاکرات سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنمائوں کو ملاقات کیلئے دعوت دی تو بھارت اس پر مزید سیخ پا ہو گیا۔
پہلے حریت لیڈروں کونظربند کیا گیا تو بعد میں مذاکرات کیلئے شرائط عائد کرنا شروع کر دی گئیں۔ پاکستان نے کسی قسم کی بھارتی شرائط کو ماننے سے انکار کیا تو مذاکرات ہی منسوخ ہو گئے۔پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ مذاکراتی دور سے پہلے دولت مشترکہ وزرائے اعلیٰ کی کئی روزہ طویل کانفرنس کی میزبانی بھی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہی ٹھوکر پررکھ دی گئی۔ پاکستان کو یہ میزبانی بہت طویل عرصہ بعد ملی اور دنیا یہ امید کر رہی تھی کہ پاکستان اس میزبانی کو کبھی اور کسی صورت پس پشت نہیں ڈالے گا لیکن جب پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کو یہ کہہ کر بلانے سے ہی انکار کیاکہ اس کی حیثیت ہی متنازعہ ہے تو وہ اسے دعوت ہی نہیں دے سکتے۔ اس پر بھارت نے واویلا مچایا تو معاملات بگڑتے بگڑتے ایک عظیم الشان کانفرنس کے خاتمے تک پہنچ گئے۔
یہ واقعات اس بات کی اب کھل کر غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر ہی کو تعلقات و مذاکرات کی بنیاد بنایا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی ایک اور خواہش یہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کو اس مسئلہ میں کبھی ساتھ نہ رکھے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب شملہ معاہدے میں یہ طے پا چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع ہے تو اس کے فریق پاکستان اور بھارت ہی ہیں ، سوکشمیریوں کو بیچ میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہاں ہم تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ شملہ معاہدہ ہی ہمارے مذاکرات کی بنیاد ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ 43سال میں بھارت نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے کیا پیش رفت کی یا پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے کون سے مذاکرات کئے، یا مسئلہ کے حل کی جانب کون سے قدم 1984ء میں اٹھائے گئے؟ مسئلہ تو پہلے دن کی طرح جوں کا توں پڑا ہے بلکہ شملہ معاہدہ کے 11سال بعد بھارت نے الٹا کر دیا۔ ریاست کشمیر ہی کے ایک علاقہ سیاچن گلیشیر پر بھی قبضہ جما لیا۔
43سال کیا کوئی کم عرصہ ہے کہ بھارت اب مسئلہ کشمیر کے شملہ معاہدے کی بنیاد پر حل کیلئے مزید کئی 43سال چاہتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کیا کرے؟ وہ تو پاکستان ہی کا وجود سرے سے مٹانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ پاکستان پر اس نے کتنے مہینوں سے سرحدی جارحیت مسلط کر رکھی ہے۔ ہمارے کتنے فوجی جوان و افسران ہی نہیں، بے شمار شہری جن میں معصوم عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، بھارتی گولہ باری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ بھارت نے 2003ء میں جو جنگ بندی معاہدہ کیا تھا، اس کے بعد اس نے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین واقع کنٹرول لائن کو انتہائی مضبوط و وسیع باڑیں لگا کر، بنکر بنا کر اور جدید سے جدید آلات جاسوسی اور آلات حرب و ضرب نصب کر کے دنیا کا سب سے خطرناک اور سخت ترین علاقہ بنا دیا ہے۔ یہ عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے جن کے تحت مقبوضہ و آزاد کشمیر کو کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ مقبوضہ و آزاد کشمیر یعنی کنٹرول لائن کے آر پار بسنے والے کشمیری عوام ایک ہی خطے کے باسی ہیں، انہیں اس طرح باڑیں لگا کر کاٹا اور تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
انہیں سارے خطے میں نقل و حرکت کی کھلی اجازت ہے جو بھارت نے ان سے چھین رکھی ہے۔ اس کھلے ظلم اور دہشت گردی کے بعد اب بھارت پاکستان کو اس کے دعویٰ حق سے محروم کرنے کیلئے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کنٹرول لائن پر تازہ دم فوج اور گولہ بارود پہنچایا جا رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں کہ بھارت محدود پیمانے پر پاکستان کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان کو بھارت کے حوالے سے دل میں کسی قسم کا کوئی بھی نرم گوشہ یا خواب و خیال نہیں لانا چاہئے۔ پاکستان کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تمام بنیادی مسائل بھول کر اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات اپنا لینے چاہئیں۔ یہ معدودے چند لوگ کیوں ایک خاص مشن پر ہیں، اس لئے انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ بھارت کے ساتھ ان کا رویہ و سلوک کیا ہونا چاہئے۔ بھارت جیسا بدخصلت اور بدطینت دشمن اور ہمسایہ ملک دنیا میں کوئی نہیں ہو گا جس کے شر کوئی ہمسایہ محفوظ نہیں۔
بھارت کا علاج اس دوا سے کرنا پڑے گا جس کا نسخہ ہمارے اسلاف نے صدیوں پہلے تجویز کر رکھا تھا۔ وہ لوگ عرب کے صحرائوں،سمندروں اور اس کے بعد افغانستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں کو چیرتے ہوئے یہاں آتے تھے اور اس خطے کے بدعہد اور انسانیت و اسلام دشمن ہندوئوں کو سبق سکھاتے تھے۔ جب انہوں نے بار بار کے حملوں اور اس خطے کے ہندو راجوںکو شکست دینے کے بعد بھی دیکھا کہ وہ باز آنے اور اپنی خصلت چھوڑنے پر تیار نہیں تو انہوں نے اس سارے خطے ہی کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ انگریز کے 1857ء میں مکمل قبضے تک مسلمانوں نے یہاں حکومت کی تو ہندو ان کے نیچے دب کر رہنے کی وجہ سے بالکل درست انداز میں رہتے رہے۔ مودی جب ہندو مت کا پیروکار ہے اور ان کی خصلت میں ہے کہ یہ ہمیشہ طاقتور سے ہی دب کر اور مرعوب ہو کر ہی دوسرے کو کچھ زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں۔
یہ بزدل اس قدر ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنے خطے سے باہر قدم بھی نہیں رکھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ انتہائی قلیل تعداد اور قلیل طاقت کے ساتھ کئی ایک طاقتور حکومتوں اور بادشاہتوں کو روندا تھا۔ محمد بن قاسم سے اس مہم کا آغاز ہوا۔ محمد بن قاسم اور راجہ داہر کی فوج کا کوئی تقابل نہیں تھا لیکن فتح حق ہی کو ملی تھی۔ ان عہد شکن، انسان و اسلام دشمن ہندوئوں سے بار بار تنگ آ کر شیر افغانستان شہاب الدین غوری کے عظیم معرکہ 1192ء میں ترائن (تراوڑی) کے میدان میں سارے خطے کی صدیوں تک تاریخی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ اس خطے کے مسلمانوں کو اپنے اسلاف کی تاریخ دہرانی ہی پڑے گی تبھی معاملات سیدھے اور خطہ پاکستان اور اہل اسلام ان مخصوص بھارت کے شر سے محفوظ ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں پسپائی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور پسپائی ہی اصل شکست ہوتی ہے۔ سو اب اس بھارت کے ساتھ معاملات نہیں سدھرتے تو اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے ایک بار دو دو ہاتھ کر ہی لئے جائیں تو یقینا معاملات سیدھے ہو جائیں گے۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ(0321-4646375)