بھارت صرف پاکستانی سرحد پر اور مقبوضہ کشمیر ہی میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب نہیں ہورہا بلکہ اس نے برِصغیر میں ماحولیاتی دہشت گردی کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
آلودہ ترین بجلی
بھارت میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم سے متعلق سب سے اہم سرکاری ادارے ’’سینٹرل الیکٹریسٹی اتھارٹی انڈیا‘‘ کی 30 ستمبر 2016 کے روز آن لائن جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، بھارت میں کوئلے سے بجلی بنانے والے 160 کارخانے نصب ہیں جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 187,252.88 میگا واٹ ہے، جبکہ ان سے بھارت میں بجلی کی پیداوار کا 61 فیصد حصہ حاصل کیا جارہا ہے۔
یہ بات خصوصی توجہ سے پڑھے جانے کے قابل ہے کہ پورے برصغیر میں کوئلے سے جتنی بھی بجلی بنائی جارہی ہے، اس میں بھارت کا حصہ 98 فیصد ہے۔
اگست 2012 میں فضائی آلودگی کے موضوع پر فلوریڈا، امریکہ میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کے ڈاکٹر موتی لال متل اور سی ایس آئی آر انڈیا کے چھمیندرا شرما اور ریچا سنگھ نے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ 2010 کے دوران ہندوستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں نے پورے سال میں 498,655,780 ٹن (49 کروڑ 86 لاکھ 55 ہزار 780 ٹن) کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کی تھی۔ یقیناً یہ بہت بڑی مقدار ہے۔
اس عرصے میں ان ہی بجلی گھروں سے فضا میں شامل ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 3,840,440 ٹن (38 لاکھ 40 ہزار 440 ٹن) تھی جبکہ نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار 2,314,950 ٹن (23 لاکھ 14 ہزار 950 ٹن) رہی۔
بعد ازاں 6 اکتوبر 2015 کے روز انسٹی ٹیوٹ فار انرجی ریسرچ، واشنگٹن کی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس کے مطابق بھارت نہ صرف دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے بلکہ اس نے 2014 میں 2,088 ملین ٹن (یعنی 2,088,000,000 ٹن) کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کی تھی؛ جس کا بڑا حصہ وہاں کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹس سے خارج ہوا تھا۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ بھارت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کرنے کےلئے تیار نہیں بلکہ وہ 2030 تک کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں 3 گنا اضافے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئلے کا استعمال تین گنا بڑھنے سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی تین گنا بڑھ جائے گی۔ یعنی 2030 تک بھارت میں فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 6,264 ملین ٹن (6,264,000,000 ٹن) تک پہنچنے کی توقع ہے۔
خطرناک، جان لیوا اور تابکار راکھ
تاہم بھارتی فضائی آلودگی کا سب سے خطرناک پہلو جو پاکستان کو شدید طور پر متاثر کررہا ہے اور جسے بجا طور پر بھارت کی ’’ماحولیاتی دہشت گردی‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، فضا میں شامل ہونے والی راکھ (fly ash) ہے۔ یونین آف کنسرنڈ سائٹسٹس، امریکہ کی رپورٹ کے مطابق، کوئلے سے بجلی بنانے والا 1000 میگا واٹ کا ایک پلانٹ سال بھر میں 500 ٹن راکھ فضا میں خارج کرتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ تمام بجلی گھر پابند ہوتے ہیں کہ اس راکھ کا بڑا حصہ ہوا میں شامل ہونے نہ دیں؛ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو راکھ کے یہی باریک باریک ذرّات سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں (خصوصاً دمے اور پھیپھڑوں میں آکسیجن جذب کرنے والی جھلّیوں کی بیماری یعنی برونکائٹس) کی وجہ بن سکتے ہیں یا ان کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ کرسکتے ہیں… لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔
1978 سے اب تک کوئلے کے بجلی گھروں سے خارج ہونے والی راکھ پر مختلف سائنسی مطالعات کئے جاچکے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ اس راکھ کے ذرّات میں تابکار عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اگر فضا میں بہت زیادہ راکھ شامل ہوجائے تو اس کے اثرات کسی ایٹمی بجلی گھر سے خارج ہونے والی تابکاری سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔
بھارت کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ وہ کیسے؟ ملاحظہ کیجئے:
ہندوستان کے معتبر تحقیقی جریدے ’’کرنٹ سائنس‘‘ (جلد 100، شمارہ نمبر 12، 25 جون 2011) میں مناس رنجن سیناپتی کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا جس کے مطابق بھارت میں کوئلے سے بجلی بنانے والے کارخانوں سے خارج شدہ راکھ کا صرف 3 فیصد حصہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ باقی کا 97 فیصد حصہ ہوا میں ہی طویل عرصے تک موجود رہتا ہے۔
چونکہ بڑے پیمانے پر چلنے والی موسمیاتی ہوائیں کسی ملکی سرحد کی پابند نہیں ہوتیں اس لئے ہوا میں شامل یہ راکھ بھی کہر کی صورت میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
لیکن بھارت میں جیسے جیسے کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد بڑھتی گئی، ویسے ویسے سردیوں کی آمد پر پاکستان میں دھند کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اور اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی موٹر وے پر حدِنگاہ روزانہ ہی تقریباً صفر رہنے لگی ہے؛ جو سورج نکلنے کے بھی خاصی دیر بعد تک برقرار رہتی ہے۔ پنجاب کے وہ شہر جو بھارتی سرحد کے زیادہ قریب واقع ہیں ان میں دھند کی شدت اور دورانیہ، دونوں زیادہ ہیں۔
محکمہ موسمیات نے یہ تو ضرور کہا ہے کہ پنجاب میں شدید دھند کی کیفیت آئندہ دو ماہ تک برقرار رہ سکتی ہے، اس دوران شہریوں کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہئے اور دمے/ سانس کے مریضوں کو خصوصی احتیاط برتنی چاہئے؛ لیکن پاکستان میں پڑنے والی شدید اور مسلسل دھند کی ’’سرحد پار‘‘ وجہ پر بات کرنے کےلئے کوئی بھی تیار نہیں۔
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276