تحریر: علی عمران شاہین
وزارت تجارت نے نیا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارت میں بارہ سو نو اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی ہے جبکہ ایک سو اڑتیس اشیاء کی درآمد کی اجازت دے دی ہے۔ نئی امپورٹ پالیسی کے تحت بھارت سے زرعی مصنوعات، کیمیکلز، خام تیل، سٹیل، ادویات، سرجیکل آلات، گاڑیاں اور سپیئرپارٹس درآمد نہیں کئے جا سکتے جبکہ ٹیکسٹائل مصنوعات، سرامکس، سونے اور چاندی کے زیورات پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ دوسری طرف بھارت سے گائے، بھینس، بکریاں، بھیڑیں اور گوشت کے ساتھ سبزیاں و پھل وغیرہ درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن یہ سب کچھ زمینی راستے سے ہی منگوایا جائے گا۔
بھارت دنیا کے کئی ممالک بشمول امریکہ، پاکستان پر ایک عرصہ سے دبائو ڈال اور ڈلوا رہا تھا کہ پاکستان اسے پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ دے کر ہر طرح کی تجارت کھول دے لیکن پاکستانی قوم کی مزاحمت کے باعث گزشتہ حکومت بھی یہ فیصلہ نہ کر سکی۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے 1996ء میں پاکستان کو ایم ایف این (موسٹ فیورڈ نیشن) کا درجہ دے رکھا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر رہا ؟اس حوالے سے حقیقت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ بھارت نے اگرچہ پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ دیالیکن اس کے باوجود اس نے پاکستان سے کبھی کوئی ایسی معمولی چیزدرآمد نہیں کی جو ان کے ہاں تیار ہوتی ہے یا وہ کسی دوسرے ملک سے پہلے ہی منگوا رہے ہیں تاکہ وہ معمولی پائی پیسے کے برابر بھی پاکستان کے دست نگر نہ بن جائیں۔
دوسری طرف وہی بھارت پاکستان سے ایم ایف این کا درجہ حاصل کئے بغیر اپنے ہر طرح کے سامان سے پاکستان کی دکانیں اور مارکیٹیں بھر رہا ہے تاکہ پاکستان کی اپنی تمام تر پیداوار ختم ہو کر رہ جائے۔ پاکستان کہنے کو زرعی ملک ہے اور دریائے سندھ کے اردگرد کا علاقہ دنیا کا جہاں زرخیز ترین علاقہ ہے تو وہیں نہری پانی سے زراعت کا دنیا کا سب سے بڑا نظام قائم ہے۔ اس کے باوجود آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ٹمائر اور آلو تک بھارت سے درآمد کرتے ہیں۔ اس کا لامحالہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے کسان سبزیوں کی کاشت سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ پاکستان دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا بڑا اور نمایاں برآمد کنندہ ملک ہے لیکن ہماری مارکیٹوں میں اس وقت بھارتی کپڑے کی بھرمار ہے۔ بھارت ہمیں چند روپے سستا دھاگہ فروخت کر کے ہماری کپاس کی پیداوار کو ہی جڑ سے اکھاڑ رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر چاول برآمد کیا کرتا تھا اور پاکستان کا باسمتی چاول دنیا بھر میں سب سے مقبول معروف تھا لیکن اب بھارت نے اپنے چاول کو باسمتی کی جعلی خوشبو لگا کر ہماری وہ مارکیٹ بھی چھین لی ہے۔
نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے چاول پیدا کرنے والے کسان اس وقت سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہیں کر رہے کہ وہ تو بے بس ہو چکے ہیں۔ بھارت ہمارے دریائوں کا پانی بند کرتا ہے توبدنام زمانہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس نے پہلے تین دریا ہم سے ہتھیائے اور پھر باقی تین دریائوں پر ڈیم بنا اور سرنگیں کھود کھود کر وہ پانی کا رخ اپنی طرف موڑ رہا ہے۔ پاکستان اس پر دنیا بھر کے فورمز کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے لیکن کہیںشنوائی نہیں ہوتی کہ ساری دنیا کی پہلی ترجیح بھارت ہے۔ جی ہاں! وہی بھارت کہ جو اول دن سے ہماراسب سے بڑا دشمن ہے۔
جس نے ہمیں مٹانا اپنااولین مقصدو منشا بنا رکھا ہے۔ اس دشمنی پر مبنی تاریخ اور واقعات کو چھوڑیے، تھوڑی دیر کیلئے ذرا ڈاکوئوں کے چھوٹو گینگ کو ہی دیکھ لیجئے کہ جن پر قابو پانے میں پولیس ناکام ہوئی تو فوج کو کتنی قوت کے ساتھ وہاں اترنا پڑا۔ کہنے کو یہ محض ڈاکو تھے لیکن جب ان کی حقیقت آشکار ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کے پاس جدید سے جدید اورمہلک سے مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ وہ طیارہ شکن توپوں تک سے مسلح ہیں اور انہیں یہ سامان جنگ خالصتاً بھارت کا مہیا کردہ ہے۔ ان ڈاکوئوں نے گرفتاریوں کے بعد بتایا کہ انہیں یہ اسلحہ افغانستان کے راستے ملتا تھا اور بھیجنے والا ظاہر ہے بھارت ہی تھا۔ بھارت ہمارے ملک کے خلاف سازشوں اور دشمنی کے سلسلے میں اس قدر نچلی سطح تک ملوث ہے کہ وہ پاکستان میں ڈاکوئوں اور چوروں تک کی سرپرستی کرتا ہے، انہیں اسلحہ و مالی امداد تک مہیا کرتا ہے۔ اب بھلا بتایئے کہ کیا ایسے بھارت کے ساتھ کبھی کوئی دوستی، تجارت یا تعلقات کی بہتری کا سوچا جا سکتا ہے؟
بھارت نے جاسوس کل بھوشن یادیو کو اپنا سرکاری فوجی افسر بھی تسلیم کر لیا ہے جس کے گینگ کے لوگ اب ملک بھر میں پکڑے جا رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بھارت کی اتنی کھلی دشمنی کے باوجود ہمارے اقتدار اور سیاست کے ایوانوں میں اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ چھوٹو گینگ کو ملنے والے بھارتی اسلحہ کے حوالے سے کسی نے بات تک کرنا گوارا نہیں کی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کشمیر کے حوالے سے بھی ہے جہاں بھارت نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کشمیری قوم کے بچے، جوان، عورتیں اور بوڑھے پاکستان سے محبت او راس کے دفاع میں کھڑے ہو کر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ وہاں ہر روز پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے اور بھارتی فورسز اس ”جرم” کی پاداش میں کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہیں وہ سب کے سامنے ہے لیکن حرام ہے کہ کبھی کسی سیاستدان کی زبان سے بھارت کی مذمت میں یا کشمیریوں کی حمایت میں کبھی کوئی جملہ نکل جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ایک بہت بڑا عفریت ہے اس کا علاج و تدارک ضروری ہے لیکن کیا اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاع اور دشمن سے ہم کبھی غافل رہ سکتے ہیں، ظاہر ہے ہرگز نہیں۔ بھارت ہمارا کشمیر 70سال سے دبا کر بیٹھا ہے۔
وہ اس کشمیر کے راستے ہی تو ہمارا پانی بند کر رہا ہے اور کشمیری لوگ ہمارے دریائوں کے پانی میں اپنا خون شامل کر کے ہمارے نان جوئیں کی پیداوار میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے اس سب سے بڑے دشمن کو پہچاننا اور اس کا قصہ پاک کرنا ہو گا۔ بھارت کے ساتھ تجارت اول دن سے صرف اور صرف گھاٹے کا سودا رہی ہے۔ ہم جو کچھ بھارت سے آج منگوا رہے ہیں ،کل تک وہ سب کچھ ہم خود پیدا کرتے رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کا توازن ہمیشہ 1:5 سے زائد رہا ہے، یعنی ہم بھارت سے خریداری کہیں زیادہ کرتے ہیں جبکہ اس کو برآمدات انتہائی کم ہونے کی وجہ سے ہمیں سالانہ کروڑوںڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ یہ گھاٹے والا سودا ہمیں سب سے پہلے بند کرنا ہو گا۔ بھارت کواس کا اصل چہرہ دکھانا او راس کی پاکستان، اسلام اور کشمیر دشمنی کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنا ہمارا فرض اولین ہونا چاہئے۔ یہ ہماری کتنی بڑی خوش قسمتی تھی اور اب بھی ہے کہ 70سال سے کشمیری قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔
دنیا کے تمام علاقائی تنازعات میں سب سے مضبوط اور قانونی مقدمہ کشمیری عوام ہے لیکن ہمارے ہاں پائی جانے والی سستیوں سے بھارت نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ بحیثیت قوم، سیاستدان، سیاسی کارکن یا شہری ہمیں بھارت کے حوالے سے آنکھیں کھول کر رکھنا ہوں گی۔ بھارت ایسا مکار دشمن ہے کہ ہمیشہ دوست اور ساجھی بن کر وار کرتا ہے۔ نریندر مودی کی پاکستان اور مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن وہی مکار لومڑی کی سی چال چلتے ہوئے ہمارے وزیراعظم کو کئی عالمی فورسز پر خود لپک کر ملتا ہے بلکہ لاہور ان کے گھر تک پہنچ جاتا ہے۔
ہندو برہمن کی یہ عیاری سادہ لوح مسلمان کبھی نہ سمجھ سکے اور ہمیشہ اس سے نقصان اٹھایا۔ اگر آج بھی ہم آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھارت کو اس کی حیثیت دکھانا اور اپنے حقوق حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔ ہمارے سامنے ہی تو سری لنکا نے بھارت کو بے بس کیا ہے۔ ایک محلے جتنی تین لاکھ آبادی رکھنے والا ملک مالدیپ اگر بھارتی چنگل سے خود کو نکال سکتا ہے تو دنیا کی چوتھی بڑی ایٹمی قوت اور 5واں بڑا ملک آخر کیوںکر اپنے دشمن کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ: 0321- 4646375