یوں تو کسی بھی ملک کے عدم استحکام کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جمہوری ہو مگر جمہور کے حقوق کا احترام نہ کرتا ہو، انتخابات ہوتے ہوں مگر صرف منتخب ہونے کےلیے۔ ووٹ عوام کے مگر نمائندگی سیاسی آقاؤں کی، سیاسی کارکن تو ہوں مگر سیاستدانوں کے ذہنی غلام اور مزدور۔ مگر آج ہم بھارت کے نام نہاد جمہوری دعووں کے تناظر میں مندرجہ بالا سچائیوں کے علاوہ بہت سے مضبوط شواہد اور عمومی حالات کا ذکر کریں گے جن کی بنا پر بھارتی حکمرانوں اور کٹر مذہبی طبقے نے اپنے پرتشدد، انتہا پسندانہ اور نفرت انگیز سماجی رویوں کے باعث بھارت کو مختلف الخیال اور متحارب قومیتوں کا ایک تپتا ہوا صحرا بنا دیا ہے؛ اور مہذب دنیا کی نظر میں بھارت کے سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعووں پر بھی ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
بھارتی آئین کے خالق اور نچلی ذاتوں سے برتاؤ
بھارت کا آئین بیرسٹر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر نے تحریر کیا ہے جنہیں آج بھی بھارت میں چمار (کم ترین ذات) کہا جاتا ہے اور انہیں شیڈولڈ کاسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اونچی ذات کے برہمن ہندو، سناتن ہندو، ٹھاکر، جین، چھتری، بنیا، لالہ، دراوڑ اور مارواڑی کے مقابلے میں کم ترین اور گھٹیا ذاتوں چمار، شودر، دلت، ساہو، دوشاد منڈل کی غیر انسانی تفریق انتہا پر ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی آبادیاں اور معاشرتی سہولیات کے مراکز الگ ہیں۔ یہ لوگ صفائی اور درجہ چہارم کے کاموں کے علاوہ کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ شیڈولڈ کاسٹ یا مخصوص ذاتوں کے حامل لوگ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہیں لیکن جو معاشرتی استحصال چماروں اور ان جیسی دوسری معاشرتی اکائیوں کا بھارت میں کیا جارہا ہے، اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ انہی اسباب اور ہندو تعصبات کی بناء پر بھارتی آئین کے خالق نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کہا تھا کہ میں پیدا تو ہندو ہوا ہوں لیکن میں ہندو کے طور پر مرنا نہیں چاہتا۔ بالآخر انہوں نے بدھ مت مذہب قبول کیا اور ہندو ذہنیت سے شدید نفرت کرتے ہوئے ہندو مت کو خیر باد کہہ دیا۔
گائے کے محافظ (گئو رکشک) دستوں کی کارروائیاں اور مسلمان
عالمی سطح پر بھارت گائے کا گوشت برآمد کرنے والے تین بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکار یا طاقتور ہندو تاجروں کی سرپرستی میں گائے اور اس کے بچھڑوں کو نفع و تجارت کی غرض سے بے دریغ قتل کیا جاتا ہے اور تجارتی حجم کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے وسیع ذخائر بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ مسلمانوں اور غریب اقلیتوں کےلیے یہ سستا گوشت کھانا تو درکنار، اس گوشت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی قتل ہونے کے مترادف ہے۔ اور اس مقصد کےلیے مسلمان مخالف بدمعاشوں اور بھتہ خوروں کو سرکاری لائسنس دے کر ’’گائے محافظ دستوں‘‘ (گئو رکشکوں) کا روپ دے دیا گیا ہے۔
اے ایف پی دہلی کی یکم مئی 2017 کی رپورٹ حکومتی سرپرستی اور فرقہ ورانہ ہندو تنظیموں کے تشدد اور عدم رواداری پر مبنی گھناؤنی سرگرمیوں کا پردہ یوں چاک کرتی ہے: ’’ریاست آسام کے ناگن ضلع کے ضلعی پولیس آفیسر دیبا راج کی رپورٹ کے مطابق گائے محافظ دستے نے شاہراہ پر رواں ایک ٹرک کی تلاشی لی اور اس شبہے کی بنیاد پر کہ دونوں مسلمان بیوپاری ابو حنیفہ اور ریاض الدین علی ان کی چراگاہ سے گائے چرا کر لے جا رہے ہیں، ان دونوں کو ڈنڈوں اور آہنی سریوں سے مار مار کر قتل کردیا۔‘‘ یاد رہے کہ یہ گائے محافظ دستے ریاست ہریانہ سمیت مختلف ریاستوں میں حکومتی سرپرستی اور باقاعدہ حکومتی اجازت نامے کے ساتھ شاہراہوں پر گشت کے دوران مال بردار گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں اور گائے کے تحفظ کی آڑ میں مسلمان تاجروں کو قتل کرتے ہیں۔
اسی طرح کے ایک اور واقعے میں راجستھان میں ایک جنونی جتھے نے دودھ کے بیوپاری کو گائے ذبح کرنے کے شک کی بناء پر بہیمانہ تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس افسوسناک واقعے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس نے اجازت نامہ نہ ہونے کے جرم میں 11 بیوپاریوں کو تو گرفتار کرلیا مگر 200 قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی گرفتار نہ کرسکی۔ قبل ازیں 2015 میں ایک شخص کو گائے کا گوشت ڈیپ فریزر میں محفوظ کرنے کے الزام میں جنونی ہندو گروہ کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ریاست گجرات میں گائے ذبح کرنے پر عمرقید جبکہ چھتیس گڑھ میں موت کی سزا ہے۔
بتاتا چلوں کہ جنوبی بھارت میں مسلمان، عیسائی اور مختلف مذاہب اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ روزمرہ غذا میں سستے پروٹین کے طور پر باقاعدگی سے گائے کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نام نہاد ’’جمہوریہ بھارت‘‘ میں انسانی جان کی قیمت اور اس کی حیثیت ایک جانور کے پاؤں تلے آنے والی مٹی سے بھی کم تر ہو کر رہ گئی ہے۔
اعتدال پسندوں اور ناقدین کا قتل عام
حال ہی میں دن دیہاڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک تلے معروف کھلاڑی اور تن ساز (باڈی بلڈر) نوید پٹھان کا سفاکانہ قتل اسلام دشمنی اور دہشت گردوں کےلیے حکومتی تھپکی کی ایک تازہ اور شرمناک مثال ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی حکومت کی معاندانہ اور متعصبانہ پالیسیوں کی ناقد، اپنی نوعیت کی واحد اور جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک کی معروف و منفرد خاتون صحافی گوری لنکیش کا قتل بھی ہندو اکثریت کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا عکاس ہے۔ معروف بھارتی فنکار اوم پوری، جو پاکستان، بھارت اور اقلیتوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے داعی تھے، پاکستان کے حق میں لب کشائی کے چند گھنٹوں بعد ہی خفیہ ہاتھوں نے ان کی آواز کو بھی پراسرار طریقے سے ہمیشہ کےلیے دبا دیا اور وہ اگلی صبح اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ چند ماہ قبل ہندو دہشت گردوں نے باپ کے ساتھ ذاتی گاڑی میں سفر کرتی ہوئی دو نوجوان مسلمان لڑکیوں کو سرراہ اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کردیا۔
طریقہ واردات
ظلم کی حد تو یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بپھرے ہوئے ہجوم کی شکل میں کی جاتی ہیں تاکہ کوئی ایک فرد بطور مجرم نامزد نہ ہوسکے اور مقدمہ ابتداء ہی سے کمزور ہو۔ اس مجرمانہ رویّے کی بناء پر پچھلے دو سال میں کم از کم 10 مسلمان گائے کی تقدیس کے نام پر قتل کیے جاچکے ہیں۔
بھارتی حکومت اور ثقافتی تعصب
اس نظریاتی آویزش کے بعد آئیے ذرا ثقافتی حوالے سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بھارت سرکار کے جانبدارانہ اور متعصبانہ رویّے کا جائزہ لیتے ہیں۔ ریاست کرناٹک (سابقہ میسور)، جنگ آزادی ہند کے ہیرو اور ممتاز مسلمان حکمران سلطان فتح علی ٹیپو اور ان کے والد حیدر علی کی عظمتوں اور ہندو مسلم ایکتا کا مظہر ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں کرناٹک کی اس مشترکہ قدر کو ہندو عدم رواداری اور دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سال سے ٹیپو سلطان کی سالگرہ کی تقریبات مسلم ہندو اتحاد کی علامت اور ثقافتی روایت بن چکی تھیں مگر اچانک ’’ہندو مینیا‘‘ (ہندو پاگل پن) سر اٹھاتا ہے اور ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا قاتل اور دشمن قرار دے کر اس تقریب کے خلاف سازشیں شروع کردی جاتی ہیں۔
مودی کے قریبی ساتھی اور بی جے پی کے مرکزی رہنما اننت کمار ہیگڑے نے ٹیپو سلطان کو ظالم کہہ کر تقریب کا بائیکاٹ کردیا جبکہ مسلمان رہنماؤں کی جانب سے اس رویّے کی مذمت کی جارہی ہے۔ عجائبات عالم میں مسلمان دور حکومت کی یادگار تاج محل آگرہ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور یہ عمارت دنیا بھر میں بھارت کی پہچان اور سیاحت کے شعبے میں ’’کماؤ پُوت‘‘ بھی ہے مگر حال ہی میں محکمہ سیاحت نے یہ کہہ کر کہ تاج محل ’’ہماری تاریخ پر ایک بدنما داغ اور لٹیروں کی باقیات ہے‘‘ نہ صرف خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے بلکہ عالمی ورثے کی توہین بھی کی ہے۔
ریاست اترپردیش نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس عالمی ورثے کو اپنے منتخب تاریخی مقامات کے معلوماتی کتابچے سے خارج کردیا ہے اور قدیم مندروں کو شامل کردیا ہے۔ بھارتی سیاحت کے دلدادہ ایک بھارتی دوست کا کہنا ہے کہ ان مندروں کو کوئی بھی شخص اپنے خاندان کے ساتھ جاکر دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ ان مندروں کے در و دیوار پر ننگے بت جس ماحول میں نظر آتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ مسلم تاریخ کی پہچان تاریخی بابری مسجد 1992 میں اسی عناد اور مسلم دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے جبکہ لال قلعہ سمیت دیگر مسلم نمائندہ یادگاروں کا تذکرہ بھی نصابی کتب سے نکال دیا گیا ہے۔
عالمی تبصرے
عالمی شہرت یافتہ جریدے ’’ہیرالڈ‘‘ کے شمارہ اگست 2017 میں ندا کرمانی اپنے تجزیئے بعنوان ’’بھارتی مسلمان کس قدر زیرعتاب ہیں‘‘ میں لکھتی ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کو اقلیت کہنا قرین انصاف نہیں، یہاں کے مسلمان دنیا کی تین بڑی عددی مسلم اکثریتوں میں سے ایک ہیں اور بھارت کی کل آبادی کا 15 فیصد ہیں۔ دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند جماعتیں اس بڑی عددی اکثریت پر غلبہ پانے میں مصروف ہیں۔ مصنفہ نے مسلمان سیاستدان سلمان خورشید کی کتاب ’’بھارت اپنے گھرمیں: بھارتی مسلمانوں کا جدید بیانیہ‘‘ اور حسن سرور کی تصنیف ’’بھارتی مسلمانوں کی بیداری: کوئی اس پر کیوں بات نہیں کرتا‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر نئے دن کے ساتھ بھارت میں دو قومی نظریئے کی حقیقت واضح ہوتی چلی جارہی ہے اور بھارت میں موجود مسلمان تقسیم ہند کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں۔ انتہا پسندی پر مبنی اس حکمت عملی سے نہ صرف ملک کی داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں بلکہ اقلیتوں کی سلامتی کو بھی شدید تشویش کا سامنا ہے۔
علیحدگی پسند رجحانات
خاص طور پر جنوبی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں تامل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں علیحدگی کے ابھرتے ہوئے جذبات کو ہندو انتہا پسندی کے ردعمل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جبکہ یہاں بسنے والی ہندو آبادی، جو خود کو ہندو کہلوانے کے بجائے دراوڑ کہلوانا پسند کرتی ہے، اپنی ثقافتی ہم آہنگی کی بناء پر سری لنکا کے ساتھ شامل ہونے کی تمنائی ہے۔
مسئلہ کشمیر
27 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ بھارت کے جھوٹے جمہوری دعووں پر سب سے بڑی ایف آئی آر کہا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے مسلمان 70 سال سے اپنے حق خود ارادیت کےلیے نام نہاد ’’بھارتی جمہوریت‘‘ کے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ بھارت دنیا کی وہ واحد جمہوریت ہے جس نے اپنے ہی زیر قبضہ جمہور کو آزادی کے مسلمہ حق کے مطالبے پر پیلٹ گن کے استعمال سے اجتماعی طور پر اندھا کرنے جیسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
خالصتان تحریک، عیسائی و دیگر
پنجاب میں سکھوں کی کئی ایک تحریکیں گزشتہ 4 دہایٔیوں سے بھارت کے دوسرے بٹوارے کےلیے سرگرم عمل ہیں جبکہ ان میں نمایاں نام خالصتان تحریک کا ہے۔ 80 کی دہائی میں گوردوارہ جنم استھان پر اندرا گاندھی حکومت کے حملے اور جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کی ہلاکت کے بعد اس تحریک نے اپنی اخلاقی آواز کو بلند کرنے کےلیے دنیا بھر میں خود کو منظم کیا ہے؛ اور اسے بھارت کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات میں سب سے نمایاں عنصر کہا جاسکتا ہے۔ بھارت کی ایک اور نمایاں اقلیت عیسائی بھی اہل اسلام ہی کی طرح ہندو ماتا کے پجاریوں کے غیض و غضب اور متشددانہ کارروائیوں کا اکثر نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ناگا لینڈ، منی پور اور دارجلنگ میں طویل عرصے سے جاری علیحدگی کی تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں اور بھارت کے جمہوری دعووں سے بغاوت اور اپنی بے چینی کا اظہار بھی۔
مزید یہ کہ کئی ایک زیر زمین تنظیمیں بھارت سے آزادی اور خودمختاری کےلیے سر گرم عمل ہیں جبکہ اکثریتی مسلم ریاست حیدرآباد کے مسلمانوں میں بھی ہمیشہ سے بھارت سرکار کی فرقہ ورانہ اور مسلم کش پالیسیوں کی بناء پر شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں اور کئی مرتبہ ریاست میں مسلمانوں کے مرکزی رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اور اکبر الدین اویسی کو پاکستانی ہونے کے طعنے اور پاکستان چلے جانے کے مشورے دیے جاچکے ہیں۔
ان حالات میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ بھارت ایک جمہوریہ سے زیادہ جنگجویانہ خیالات کے حامل متحارب گروہوں کا میدان جنگ بن چکا ہے جہاں کشمیر، پنجاب اور جنوبی بھارت سمیت مختلف علاقوں میں بننے والے بغاوت کے آتش فشاں کسی بھی وقت بھارت کی وحدت اور جغرافیائی حدود کا ازسرِنو تعین کرسکتے ہیں۔