تحریر : علی عمران شاہین
بھارت کی پاکستان پر مسلسل سرحدی جارحیت، جنگ اور حملے کی دھمکیوں کے بعد اب ازلی منافقانہ پالیسی کے تحت کہا گیا ہے کہ بھارت پہلی گولی نہیں چلائے گا۔اس سے پہلے بھارتی فوجی سربراہ نے اپنی فوج کو محدود جنگ کی تیاری کا حکم دیا ہے تو اس کے جواب پاکستان کی جانب سے بھی بیانات دیئے گئے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ہم ہر طرح کی جنگ کے لئے تیار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے تو یہاںتک کہا کہ ملکی دفاع میں ایٹم بم تک چلا سکتے ہیں، بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جنگ محدود نہیں ہو گی۔ اس تناظر میں پاکستان کے ایک مرکزی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرثمر مبارک مند نے کہا کہ ہم سیکنڈوں میں بھارت کو صفحہء ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ اس تناظر میںصدر اور وزیراعظم کو بھی کہنا پڑا کہ ملکی دفاع کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔
اس بار 6ستمبر کے روز 1965ء کی جنگ کے 50 سال مکمل ہوئے۔ حیران کن طورپر بھارت نے پہلی بار اس جنگ میں باضابطہ طور پر اپنی ”فتح” کا اعلان کیا۔ نریندر مودی نے تو کئی ہفتوں پر مشتمل ”فتح تقریبات” بھی شروع کیں۔ نریندر مودی کو اس حوالے سے بھی سبکی کا بھی سامنا ہوا کیونکہ بھارت کے اپنے عسکری ماہرین، ریٹائرڈ فوجیوں اور میڈیا تک کے کچھ لوگوں نے حرکت کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ یہ دعویٰ درست نہیں۔ ویسے تو یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، بھارت میں جہاں مسلمانوں پر نئی سے نئی قسم کے مظالم شروع ہوئے ،وہیں پہلے سے جاری مظالم میں بھی زبردست تیزی آئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی مودی حکومت نے کشمیری قوم کو دبانے، ان پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اور انہیں زیر دام لانے کے لئے ایسے ایسے حربے آزمانے شروع کر رکھے ہیں کہ جن کی مثال پہلے نہیں ملتی۔
کبھی دفعہ 370ختم کرنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی بھارت کے سابقہ فوجی مقبوضہ کشمیر میںبسانے کی بات ہوتی ہے اور کبھی مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوںکو زیادہ سے زیادہ لانے کے لئے نئی سے نئی یاترائیں شروع کروائی جاتی ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کی معاشی حالت کو مزید تباہ کرنے کے لئے اس بار اپنے ہاں سے سیاحوں کو بھی مقبوضہ وادی آنے سے روکا۔ ملک کے مختلف ہوائی اڈوں پر بھی مقبوضہ وادی آنے والے سیاحوں کو بدظن کر کے دوسرے علاقوں میں بھیجا گیا۔ بھارت میں ہر جگہ پراپیگنڈہ یہ کیا جاتا رہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات انتہائی خراب ہیں اور سیاحوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالی جا سکتیں حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین اور حریت پسندوں نے غیر ریاستی سیاحوں اور عوام کو کبھی کچھ نہیں کہا کیونکہ ان کا جھگڑا توبھارتی سرکار سے ہے، عوام سے نہیں۔
اس سلسلے میں مقبوضہ جموں کے مسلم عوام پر بھی نت نئے مظالم شروع ہوئے۔ بھارت کی جانب سے ان سے ان کا حق ملکیت ختم کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں تو ان سے سرکاری ملازمتیں بھی چھینی جا رہی ہیں۔ اس پر مقبوضہ وادی کے مسلمان اورحریت تنظیمیں سخت احتجاج کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم بھی اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے اور کشمیریوں کی گرفتاریاں، قتل، مار دھاڑ، مقدمات بھی ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال 7ستمبر کے روز مقبوضہ وادی میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس نے ساری مقبوضہ وادی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ اڑھائی لاکھ گھر مکمل تباہ ہوئے تھے۔ دسیوں ہزاروں دکانیں اور کاروباری مراکز ملیامیٹ ہو گئے تھے۔ ساری وادی کا بنیادی ڈھانچہ یک لخت تباہ و برباد ہو کر رہ گیا تھا۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ ان کا مالی نقصان کھربوں روپے کا تھا لیکن بھارت نے ان کے ساتھ مذاق یہ کیا کہ ان کے لئے محض 3800روپے فی کس امداد کا اعلان کر دیا۔ سال گزر چکا ہے، 7ستمبر کو سارے مقبوضہ کشمیر میں اس حوالے سے احتجاجی پروگرام ہوئے ہیں لیکن بھارت کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
پاکستان کی شہ رگ پر یوں چھری چلانے والے اسی بھارت نے پاکستان کو دنیا بھر میں یکہ و تنہا کرنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ نریندر مودی جس ملک میںقدم رکھتے ہیں، پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور پاکستان کے خلاف اس ملک سے اتحاد ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف انتہائی خطرناک قرارداد بھارت کتنی بار لے کر جا چکا ہے لیکن اس بارجتنا خطرناک حملہ مودی نے اقوام متحدہ کے ذریعے کیا وہ ہمیں ساری دنیا میں سب سے بڑا دہشت گرد قرار دلوا کر تنہا کرنے کے لئے کافی تھا لیکن وہ چین کی بروقت مداخلت اور ویٹو پاور سے ناکام ہوا۔ اب حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اماراتی حکومت سے 70 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے کئے۔
متحدہ عرب امارات میں بھارت کے کسی وزیراعظم نے 35سال بعد قدم رکھاتھا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ عسکری اور دفاعی معاہدے کر کے پاکستان کو اس طرف سے گھیرے لیکن عین انہی لمحات میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کو ایسے معاہدے سے روک دیا۔متحدہ عرب امارات ہمارا دوست ملک ہے جہاں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ ہمارے شہری برسرروزگار ہیں اور اربوں کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔پاکستان پر جب کبھی کوئی مشکل وقت آئے، امارات ہمیشہ سب سے پہلے مدد کیلئے پہنچنے والوں میں ہوتا ہے۔ امارات کے لوگوں نے ہمارے ہاں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان کے تو پاکستان میں گھر بھی ہیں۔
یمن کی خانہ جنگی کے موقع پر جب عرب ممالک نے ہمیں اپنا دلی دوست سمجھ کر مدد مانگی تو فیصلہ” مقدس جمہوریت” سے ہونا قرار پایا تو ہم دوستوں کی مدد سے قاصر قرارپائے۔ اس پر عرب دوست حیران و پریشان رہ گئے، اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے نائب وزیرخارجہ کو انتہائی سخت الفاظ میںدھمکی بھی دینا پڑ گئی۔ سو اب ہم اپنی اس غلطی بلکہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں کہ ہمارے بہترین دوستوں کو بھارت جیسا دشمن ہم سے علیحدہ کر کے ہمارے خلاف اتحاد بنا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے ہمارا سب سے بڑا برآمدی ریونیو آتا تھا جو تقریباً مکمل بند ہو چکا ہے۔ پاکستان کے کئی سیاستدان اپنے تئیں خوش ہو کر بغلیں بجاتے رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو یمن کی جنگ میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ ہماری اس حرکت نے حالات یہاںتک پہنچائے کہ بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے کامیاب حکمت عملی اور خارجہ پالیسی سے امریکہ اور متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستان کا مخالف بلکہ دشمن بنا دیا ہے۔ کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات بھی اب بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔
ذرا اندازہ تو کیجئے کہ یہی سیاستدان جو ملک کے سب سے بڑے خیرخواہ بننے کا دعویٰ سچ ثابت کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، بھارت کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں۔ ان کی زبان سے سیاسی حریفوںکے خلاف شعلے نکل رہے ہیں لیکن بھارت کے خلاف بھولے سے بھی کوئی جملہ نہیںنکلتا ۔ہم اس انتہائی نازک موقع پر اپنے عوام، اور تمام طبقات سے گزارش کریں گے کہ بھارت کی ان چالوں کے خلاف پہلے میدان میں آیئے۔ ہمارے خلاف عالمی سطح پر ہی نہیں، علاقائی سطح کے ساتھ سرحدات پر بھی بھارت خطرناک جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ کشمیریوں نے پاکستان کے پرچم لہرا لہرا کر بھارت کو ناکام کر کے دکھا دیا ہے
لیکن کیا ہم بھی اس حوالے سے کچھ کرنے کو تیار ہیں؟ ہم سیاستدانوں سے ہی عرض کریں گے کہ خدارا! تھوڑی دیر کے لئے آپس کا اختلاف بھول کر ملک کے دفاع میں بھارت کے خلاف 6ستمبر کے پیغام کو سامنے رکھتے ہوئے وہی جذبہ، وہی اتحاد، وہی ایمان پیدا کر کے دکھا دیجئے جو 50سال پہلے ہم نے بھارت کو دکھایا تھا اورکامیابیوں نے ہمارے قدم چومے تھے۔ اگر ہم ان حالات میں بھی ملک کے دفاع کی فکر نہیں کرتے تو ایسے لوگوں سے بڑھ کر ہمارا ملک دشمن کون ہو گا۔
تحریر : علی عمران شاہین