بھارتی آبی جارحیت، سندھ طاس معاہدہ کی سنگین خلاف ورزی، ستلج، راوی ، بیاس کامکمل اور چناب کا 50ہزار کیوسک پانی روک لیا۔ چاروں دریاؤ ں سے برآمد ہونے والی 90 نہریں مکمل طور پر بند ہوگئیں۔
تفصیلا ت کےمطابق 1960ء کی دہائی میں پاک بھارت سندھ طاس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک میں طے پایا تھا کہ بھارت دریائے چناب میں 55ہزارکیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہوگا۔ جسکے برعکس بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیراور ہماچل پردیش میں ڈیم تعمیر کرکے ان کے لیول کو اپ کرنے کیلئے دریائے چناب کا پانی روک لیااورہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں 55 ہزار کے بجائے 5461 کیوسک پانی کی آمد ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
سندھ طاس معاہدے سے قبل بھارت کی طرف سے دریائےبیاس میں 12 ہزار کیوسک ،دریائےستلج میں 10 ہزار کیوسک اور دریائے راوی میں 15ہزار کیوسک پانی کی آمد خریف کی فصل کی کاشت کےلئے درکار ہوتا تھا، تاہم سندھ طاس معاہد ہ کی رواور عالمی قوانین کےتحت ستلج ، بیاس اور راوی میں پائے جانے والے آبی جانوروں اور پرندوں کی زندگی کو بحال رکھنے کےلئے پانی چھوڑنا ضروری ہے۔
بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ستلج ،بیاس اور راوی پر ڈیم تعمیرکرکےانکامکمل طور پر پانی رو ک لیا ہے جسکےباعث مذکورہ3دریاریگستان کی صورت اختیار کر گئےہیں اوروہاں پر پائے جانے والے آبی جانور اور پرندے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ دریائے چناب کےڈیم ہیڈ مرالہ،ہیڈ خانکی، ہیڈ قادر آباد، ہیڈ تریموں اور ہیڈ پنجند سے نکلنے والی نہریں خریف کی فصل کےلئے مکمل طور پر بند ہوگئی ہیں۔
نہر اپر چناب میں 18 ہزار کیوسک کے بجائے 4182 کیوسک پانی چھوڑا جا رہا ہے اور ہیڈ خانکی کے مقام پر ایل سی سی کو رواں رکھنے کے لئے دریائےجہلم سے لوئر چناب کے ذریعے پانی حاصل کیاجارہاہے۔ اسی طرح دریائے راوی، دریائے ستلج، دریائے بیاس سے برآمد ہونے والی 90 کے قریب نہریں مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہیں جس سےپنجاب کےگوجرانوالہ ریجن ،فیصل آباد ریجن، لاہور ریجن، ملتان ریجن، بہاوپور ریجن، بہاولنگر ریجن، رحیم یار خان ریجن کی کروڑوں ایکٹر اراضی پرخریف کی فصل کو نہری پانی دستیاب نہ ہونے کی بناء پر کاشتکاروں کو ٹیوب ویلز کے ذریعے مہنگا ترین پانی استعمال کرنا ہوگا۔ جس سے زرعی ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا۔