counter easy hit

دنیا کا سب سے عجیب وغریب واقعہ، جب ایک ملک اپنے ہی شہری کے ستھ انصاف ہوتا برداشت نہیں کرپارہا،ہندوتوا سوچ

اسلام آباد(یس اردو نیوز) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی سفارتکار جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو سے ملاقات کیلئے آئے تھے لیکن اس سے بات کیے بغیر ہی چلے گئے جبکہ کلبھوشن ان سے بات کرنے کیلئے دیر تک پکارتا رہا لیکن وہ اسے نظرانداز کر کے واپس روانہ ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تحویل میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پاس سزائے موت پرنظرثانی کی اپیل دائرکرنے کیلئے اب جبکہ صرف 4 دن رہ گئے ہیں پاکستان نے بھارت کو یادیو تک قونصلر رسائی کی اجازت دے دی تھی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت نے یادیو تک قونصلر رسائی کے لیے پاکستان کو از سر نو درخواست دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے کلبھوشن یادیو تک ’بلا روک ٹوک اور کسی پابندی کے بغیر‘ قونصلر رسائی کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ ملٹری عدالت نے یادیو کو جاسوسی اور دہشتگردی کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی جس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے آخری تاریخ 20جولائی مقرر کی تھی۔ دفتر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارتی بحریہ کے زیر حراست افسر اور جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پرجواب کا انتظار کررہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر نہ کرنے کے لیے کلبھوشن یادیو کو ڈرایا دھمکایا گیا۔جبکہ نئی دہلی میں وزرات خارجہ کے ذرائع کے مطابق گوکہ پاکستان نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے تاہم بھارت چاہتا ہے کہ یہ قونصلر رسائی ‘بلا روک ٹوک اور کسی پابندی کے بغیر‘ ہونی چاہیے اوراس طرح کی پابندیاں عاید نہیں کی جانی چاہیے جیسا کہ گزشتہ برس ستمبر میں پہلی قونصلر رسائی کے دوران عائد کی گئی تھیں۔بھارتی ذرائع کے مطابق ستمبر میں جب پاکستان نے یادیو کو قونصلر رسائی دی تھی اس وقت اتنی ساری رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں کہ یادیو اپنی بات نہیں کہہ سکے تھے۔ پاکستان ان پر ذہنی دباو ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق ان سے باتیں کرواتا رہا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کر کہا کہ ‘بھارت پچھلے ایک برس سے یادیو کے ساتھ بلا روک ٹوٹ اور کسی پابندی کے بغیر قونصلر رسائی کی درخواست کر رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے مطابق ‘بلا روک ٹوٹ اور کسی پابندی کے بغیر‘ رسائی کی اجازت دینی چاہیے۔ کیوں کہ یادیو کے معاملے میں آئی سی جے نے ‘آزادانہ اور منصفانہ مقدمہ‘ چلانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ بلاروک ٹوک قونصلر رسائی میں انگلش زبان میں بات کرنے پر زور نہیں دینا بھی شامل ہے۔ بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ یادیو کے ساتھ بات چیت کے دوران کم از کم دو افسران کو ملنے کی اجازت دی جائے۔ اس دوران کوئی پاکستانی افسر کمرے میں موجود نہ رہے اور اس ملاقات کی کوئی آڈیو ویزوول ریکارڈنگ نہ کی جائے۔بھارتی حکام کا خیال ہے کہ پاکستان کی شرطوں پر یادیو تک قونصلر رسائی کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ دکھاوا ہے تاکہ پاکستان آئی سی جے کو یہ باور کراسکے کہ اس نے بین الاقوامی عالمی عدالت انصاف کے احکامات پر عملدرآمد کیا ہے۔ جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہےکہ بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوئے، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔ علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت تھی کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو انہوں نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں ان کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔یاد رہے ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف بھارت نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف تک رسائی حاصل کی تھی اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔عالمی عدالت نے بھارت کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر رسائی دے اور ان کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کرے۔ دریں اثنا وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارتی سفارتکار کو کلبھوشن تک قونصلررسائی دی،آج بھارت کی2سفارتکاروں کوقونصلررسائی دی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ جوبات طے ہوئی تھی اس کے تحت قونصلررسائی دی۔ جبکہ بھارت کی بدنیتی سامنے آگئی یہ قونصلررسائی ہی نہیں چاہتے تھے۔وزیرخارجہ نے کہاکہ کلبھوشن بھارتی سفارتکارکوپکارتارہااوروہ چلے گئے،کلبھوشن کہتارہامجھ سے بات کریں اورسفارتکارچلتے بنے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ بھارتی سفارتکاروں کا رویہ حیران کن تھا،سفارتکاروں نے کلبھوشن سے بات ہی نہیں کرنی تھی تورسائی کیوں مانگی ۔بھارتی سفارتکاروں کو درمیان میں شیشے پراعتراز تھاجسے ہٹا دیا گیا اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ پر اعتراض تھا وہ بھی نہیں کی گئی۔بھارتی سفارتکاروں کی تمام خواہشات پوری کیں پھر بھی وہ چلے گئے۔ ہم نے کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت کے فیصلے کو قبول کیاہے جبکہ بھارت کا رویہ ہمیشہ منفی رہااور کبھی تعاون نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سوچ مثبت ہے اور ہم نے ہمیشہ حقائق دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔جبکہ بھارت میں انتہاپسند طبقے کی حکومت ہے۔ جس نے انسانی تقاضوں اور قانون کوکبھی نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے بھارت کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی بہت کوشش کی۔ بھارتی انتہاپسند حکومت نے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ مذموم رویہ اپنا ہے۔بھارتی حکومت نے چین کو بھی نہیں بخشا اور بنگلادیش کو بھی نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ سری لنکا سے رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ ہندوتوا سوچ برقرار رہی تو بھارت سے بہتری کی توقع نہیں کرسکتے بھارت عالمی سطح پر تنہا ہوتاجارہاہے۔ عالمی سطح پر بھارت کو ناکامیوں کا سامناہے۔

KULBHUSHAN JADAVE

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website