پاکستان کے مشیر خارجہ کی ”ہارٹ آف ایشیائ“ کانفرنس میں شرکت کے لئے امرتسر میں موجودگی پر معترض ہماری قومی حمیت کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو چند حقائق غالباََ یاد نہیں رہے۔ ان میں سے اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دائمی امن کے قیام کے لئے اس تنظیم کو متعارف ہمارے برادر ملک ترکی نے کروایا تھا۔
ترکی،افغانستان کا ہمسایہ نہیں۔ وہ مگر ایک طاقت ور مسلم ریاست ہے۔ امریکہ کی زیرسرپرستی قائم ہوئے فوجی اتحاد نیٹوکا بنیادی رکن بھی ہے۔اس کی افواج نائن الیون کے بعد نیٹو اتحاد کے مختلف ممالک کے دستوں کے ساتھ افغانستان میں مقیم رہی ہیں۔
ان سب حقائق سے قطع نظر بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ افغانستان کے ازبک جو مزار شریف جیسے اہم شہر کے ذریعے اس ملک کو وسطی ایشیاءسے ملاتے ہیں،نسلی اور لسانی حوالوں سے خود کو ”عظیم تر ترکی“ کاحصہ سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں بسے ازبک لوگوں کا بے حم نمائندہ-دوستم-اگر آخری لمحات میں پشتون مجاہدین کے ساتھ اتحاد قائم نہ کرتا تو 1992ءمیں روس کے حمایت یافتہ ڈاکٹر نجیب کی حکومت کا تختہ اُلٹنا ناممکن ہوجاتا۔
افغانستان میں بسے ازبک اگر اس ملک میں دائمی امن کے قیام کی کوششوں سے لاتعلق رہیں تو وہاں کے شمالی علاقوں میں شورش مسلسل برپا رہے گی۔ افعانستان کے معاملات سے ترکی کا رشتہ لہذا بہت ٹھوس اور منطقی ہے۔ وہ اگر اس ملک میں دائمی امن کے لئے کوئی قدم اٹھائے تو پاکستان اس کی کوششوں کو شک کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اس کے ساتھ انتہائی خوش دلی سے تعاون پر خود کو ہر وقت آمادہ محسوس کرتا ہے۔ امرتسر میں ہوئی کانفرنس کا ”بائیکاٹ“ اس تناظر میں ہمارے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔
بھارت بھی افغانستان کا ہمسایہ نہیں۔ سوویت یونین کے ساتھ اپنی دوستی کی وجہ سے بلکہ یہ ان ”غیر جانبدار ممالک“ میں سرِ فہرست رہا جنہوں نے افغان مجاہدین کی حمایت میں کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا تھا۔ افغانستان کا ہمسایہ نہ ہوتے ہوئے بھی بھارت اس ملک کو ”عظیم تر بھارت“ -جسے”آریہ ورت“کا نام بھی دیا جاتا ہے-کا جزولاینفک سمجھتا ہے۔تاریخ کے ٹھوس حوالوں کی بدولت بھارت دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں بھی اکثر کامیاب رہتا ہے کہ افغانستان میں ہوئی شورش سے نبردآزما ہوکر ”سورما“ ہوئے دلاور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے بعد کابل سے لاہور اور بعدازاں”سرہند“ پر قابو پانے کے بعد دلی پر قابض ہوجایا کرتے تھے۔ بھارت کو غیر ملکی یلغار سے بچانے کے لئے افغانستان میں امن کا قیام تاریخی تناظر میں نئی دہلی کی مجبوری ہے۔
پاکستان،حالیہ تاریخ کے تناظر میں بھارت کی افعانستان میں مداخلت کے بارے میں اعتراضات اٹھاتا ہے تواس کی وجوہات بھی بہت مناسب اور منطقی ہیں۔ ہمارا اصرار ہے کہ افغان جہاد سے کئی دہائیوں تک سفاکانہ انداز میں لاتعلق رہنے کے باوجود،بھارت افغانستان میں اچانک ضرورت سے زیادہ متحرک ہوگیا تو اس کا مقصد صرف پاکستان کے پچھواڑے میں شورش کو بڑھاوادے کر اس کا رُخ پاکستان کی جانب موڑنا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی اشرافیہ کے دلوں میں موجود کینہ سے کہیں زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ نئی دہلی افغان معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے خود کو علاقائی تھانے دار کی حیثیت دینا چاہ رہا ہے۔ ”ہارٹ آف ایشیائ“ کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پاکستان ایک حوالے سے افغانستان پر بھارت کی چوہدراہٹ تسلیم کرلیتا۔
پاکستان کے مشیر خارجہ کو امرتسر پہنچنے کے بعد جان بوجھ کر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔سرتاج صاحب کے ساتھ ہوئے سلوک نے درحقیقت بھارتی تنگ نظری کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ بھارت کو یقین تھا کہ ”قومی حمیت“کے شوروغوغا کے خوف سے پاکستان کے مشیرخارجہ ہارٹ آف ایشیاءکے تحت ہوئی کانفرنس میں شرکت کو تیار نہیں ہوں گے۔ ان کو امرتسر آمد نے اسے حواس باختہ کردیا۔ افغان معاملات پر اجارہ قائم کرنے کی بھارتی چال ناکام ہوگئی۔ سرتاج صاحب کی موجودگی نے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے پاکستان کو افغانستان میںجاری شورش کا تنہا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششوں کو بھی ناکام بنادیا۔
سرتاج صاحب کے ساتھ بھارت نے یہ غیر سفارتی انداز پہلی بار نہیں اپنایا ہے۔ جون 1999ءکے دوسرے ہفتے کے دوران کارگل کے معاملات کو طے کرنے کی کوشش میں دوسری نواز حکومت کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے سرتاج صاحب دلی پہنچے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔انگریزی اخبارات کے لئے خارجہ امور پر رپورٹنگ کی وجہ سے مجھے ان کے ساتھ جانے والے صحافیوں کے وفد میں شامل کیا گیا تھااسلام آباد میں ہم صحافی لاہور پہنچے تو کئی گھنٹوں تک ہمیں بھارتی حکام کی جانب سے ان کے ہاں آنے کی کلیئرنس ہی نہ مل پائی۔بالآخر دِق ہوکر ہم ایک ہوٹل میں کمرے لے کر وقت گزارنے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر یہ کلیئرنس آئی تو بہت افراتفری میں دلی پہنچے۔ وہاں ملے ہوٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی ہمیں دلی میں اس صبح شائع ہوئے تمام انگریزی اخبارات ایک بنڈل کی صورت ملے۔ ان سب اخبارات کے صفحہ اول پر اس ٹیلی فون کال کی حرف بہ حرف روئیداد چھپی تھی جو ان دنوں کے آرمی چیف جنرل مشرف نے اپنے چیف آف سٹاف جنرل عزیز کو شنگھائی سے کی تھی۔ اس گفتگو میں یہ بات عیاں تھی کہ جنرل مشرف نے کارگل کے ضمن میں وزیر اعظم نواز شریف کو تفصیلات سے باخبر نہیں رکھا تھا۔
ایک سابق فوجی-جسونت سنگھ-ان دنوں بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ موصوف نے کافی انتظار کے بعد اپنے ہم عصر سے نئی دلی کے حیدر آباد ہاﺅس میں ملاقات کے لئے وقت نکالا۔ سرتاج صاحب نے اپنی کتاب میں اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر خارجہ اور دیگر افسروں کے درشت اور غیر مناسب رویے کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ ہمارے ساتھ ”حیدرآباد ہاﺅس“ کے لان میں کھڑے بھارتی صحافیوں کا رویہ بھی کافی غیر دوستانہ تھا۔ چند ایک تو طنزیہ انداز میں شنگھائی سے ہوئی کال کا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری رائے کیمروں کے ذریعے اپنے لوگوں تک پہنچانے کو بے چین رہے۔
سرتاج عزیز کی جسونت سنگھ سے ملاقات کافی ناخوش گوار اور بے نتیجہ رہی تھی۔ اس کے باوجود پاکستان کے وزیر خارجہ نئی دہلی میں ہمارے سفارت خانے کے تہہ خانے میں موجود ایک وسیع ہال میں 150سے زیادہ بھارتی صحافیوں کے تمام تر سوالات کا جواب دینے کو تیار تھے۔ ان کی پریس کانفرنس کے دوران بھارتی صحافی اوباش لونڈوں کے ایک غول کی طرح سرتاج صاحب کو ہوٹنگ کا نشانہ بناتے رہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نہیں دئیے۔ مسکراتے ہوئے بیہودہ ترین الفاظ میں اٹھائے سوالات کے جواب دیتے رہے۔ میں نے اس پریس کانفرنس کی روداد لکھتے ہوئے بھارتی صحافیوں کو فٹ بال گنڈوں کا خطاب دیا تھا۔ اس خطاب کو میرے کئی بھارتی ہم عصروں نے ابھی تک فراموش نہیں کیا ہے۔
سفارت کاری پیش قدمیوں کا تقاضہ کرتی ہے۔ پاکستان کے لئے امرتسر میں ہوئی کانفرنس میں شرکت ضروری تھی۔ قومی حمیت کے نام پر اس کا بائیکاٹ ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنے سے فرار شمار ہوتا۔