پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ کرکٹ سیریز کے تنازع پر نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے قانونی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اصولی طور پر مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پی سی بی حکام اسے بریک تھرو قرار دے رہے ہیں۔
البتہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنے پرانے موقف کو دہرایا ہے کہ حکومت نے پاکستان سے سیریز کھیلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس لئے ہم نے ایم او یو کے تحت سیریز میں شرکت نہیں کی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یارخان کا کہنا ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھیجے گئے نوٹس کے حوالے سے وہ بہت زیادہ پرامید ہیں کہ اس کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوگا۔
واضح رہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مئی 2014 میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق اس نے 2015 سے 2023 تک پاکستان کے ساتھ چھ ٹیسٹ سیریز کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن اس میں سے اب تک کوئی سیریز نہیں کھیلی جاسکی ہے۔
شہریار خان نے اتوار کو لاہور سے انٹر ویو دیتے نوٹس کا جواب ملنے کی تصدیق کی لیکن کہا کہ وہ حکومتی اجازت کے اپنے پرانے موقف پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانونی نوٹس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آگیا ہے۔ وہ اس ہفتے دبئی میں ملاقات کے لئے رضامند ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ رچرڈسن چیمپئنز ٹرافی کے لئے انگلینڈ میں ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ملاقات میں آئی سی سی کو بھی شریک رکھنا چاہتا ہے۔ اگر ڈیوڈ رچرڈسن اپنے کسی نمائندے کو ملاقات میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو مذاکرات ایک ہفتے میں ہوں گے۔ دوسری صورت میں مذاکرات انگلینڈ میں آئی سی سی میٹنگ کے دوران ہوں گے۔ اس حوالے سے صورتحال اگلے دو تین میں واضح ہوجائے گی۔
شہریار خان نے کہا کہ کیس کو تنازعات کمیٹی کے سامنے لے جا نے کے لئے بھارتی بورڈ سے مذاکرات ضروری ہیں۔ مذاکرات کے بغیر کیس آگے نہیں بڑھ سکتا۔ شہر یار خان سے پوچھا گیا کہ بھارت کی جانب سے مفاہمت کی یادداشت کی خلاف ورزی پر کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت سے کیوں رجوع نہیں کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب آئی سی سی میں ایک طریقۂ کار موجود ہے اور وہاں ایک کمیٹی موجود ہے تو پھر کسی تیسری عدالت میں کیوں جائیں؟۔
اس سلسلے میں برطانوی وکلا سے بھی رائے لی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا کیس خاصا مضبوط ہے۔