تین طلاقوں کو مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انڈیا میں گذشتہ کچھ دنوں سے اس مسئلے پر کافی بحث ہوتی رہی ہے۔
اس بارے میں ممکن ہے کہ مقامی عدالتوں کے اعداد و شمار مختلف ہوں لیکن بھوپال کی شرعی عدالت کے اعداد و شمار ایک اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
بھوپال کی شرعی عدالت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2012 کے بعد سے شہر میں طلاق کے مقابلے میں خلع کے کیس زیادہ رجسٹر ہوئے ہیں۔
شرعی قانون کے مطابق شادی کو ختم کرنے کے سلسلے میں اگر مرد اپنی بیوی سے الگ ہونا چاہتا ہے تو وہ عورت کو طلاق دیتا ہے لیکن اگر عورت اپنے شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہے تو اسے بھی علیحدگی کا حق حاصل ہے اور اس عمل کو ‘خلع’ کہا جاتا ہے۔
ہماری ملاقات ایک ایسی ہی مسلم خاتون منہاج سے ہوئی۔ 32 سالہ منهاج کا نکاح تقریباً چھ سال پہلے ہوا تھا۔ چند برس قبل منہاج کے اپنے شوہر کے ساتھ تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے۔ ان کے شوہر علیحدگی نہیں چاہتے تھے لیکن منہاج کے لیے وہ رشتہ برقرار رکھنا مشکل تھا۔
منہاج نے خلع کی کی پوری وجہ تو نہیں بتائی لیکن انھوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ کہتی ہیں: ‘میں نے کافی سوچا اور اس کے بعد مجھے یہی لگا کہ میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اپنا راستہ خود منتخب کروں۔ میرے خاندان میں ایسے بہت سے لوگ تھے جو میری رائے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے لیکن میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیا۔ میں نے گذشتہ برس خود کو پوری طرح سے آزاد کر لیا۔’
بھوپال کی شرعی عدالت کے مطابق سنہ 2012 میں شہر میں 6،587 نکاح ہوئے اور 355 خلع کے معاملے پیش آئے۔ 2013 میں
5،725 شادیاں ہوئیں اور 369 خلع ہوئے۔ سنہ 2014 میں 5،621 نکاح اور 355 خلع جبکہ 2015 میں 5،859 شادیاں ہوئیں اور 359 خلع کے معاملے پیش آئے۔ رواں برس 30 ستمبر تک 1627 نکاح ہو چکے ہیں جبکہ 212 خواتین خلع لے چکی ہیں۔
شرعی عدالت کے مطابق طلاق سے زیادہ خلع کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
اس طرح کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلم خواتین کی سوچ اب تیزی سے بدل رہی ہے اور کم سے کم بھوپال جیسے شہر میں تو خواتین اپنی زندگی کے فیصلے خود ہی کر رہی ہیں۔
شہر کے قاضی مفتی سید مشتاق علی ندوی کہتے ہیں: ‘جب کوئی ہمارے پاس آتا ہے تو سب سے پہلی کوشش باہمی مفاہمت کی ہوتی ہے اور جب کوئی راستہ نہ نکلے تو پھر اس صورت میں الگ ہونا ہی بہتر ہے۔’
وہ کہتے ہیں: ‘نکاح ایک عبادت ہے اور اگر وہ کیا جائے تو زندگی بھر ادا کرنے کی نیت سے کیا جائے۔ اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کا رشتہ نبھ نہیں پا رہا تو مار کر پھینکنے، جلانے یا زہر دینے کے بجائے طلاق بہتر حل ہے۔’
طلاق جیسے معاملات پر کام کرنے والی بھارتی مسلم خواتین نامی تنظیم کی ریاستی سطح کی رابطہ کار صفیہ اختر کہتی ہیں کہ طلاق دینے کے لیے مرد اب نئے نئے طریقے بھی نکال رہے ہیں لیکن اس کا طریقہ وہی ہونا چاہیے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔