کشمیر(ویب ڈیسک)بھارتی سول سروس امتحان ٹاپ کرنے والے کشمیری افسر نے استعفیٰ دے کر تہلکہ مچادیا،سیاست میں آنے کا اعلان،شاہ فیصل 8سالہ سروس میں کئی اہم عہدوں پر فائر رہے اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی جاری رکھی،اظہار رائے پر پابندی لگی تو چھٹی لے کر امریکہ چلے گئے،واپسی کے چار روز بعد استعفیٰ دے دیا۔شاہ فیصل نے آٹھ سال قبل انڈیا کے سول سروسز امتحانات میں ملکی سطح پر اول پوزیشن حاصل کر کے تو تہلکہ مچایا ہی تھا لیکن منگل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ہند نواز سیاست میں جانے کا اعلان کر کے انہوں نے اس سے بھی بڑا تہلکہ مچا دیا ہے۔اس دوران وہ کشمیر کی انتظامیہ میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے، لیکن وہ سوشل میڈیا پر حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے جس سے وہ ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔ چھ ماہ قبل جب حکومت نے افسروں کے لیے سوشل میڈیا پر سیاسی خیالات کا اظہار کرنا ممنوع قرار دیا تو وہ رخصت لے کر امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے فل برائٹ سکالرشپ کے تحت انتظامی امور میں ڈگری حاصل کر لی۔وطن واپسی کے چار روز بعد انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے ہندوتوا تشدد اور کشمیر میں ہو رہی ہلاکتوں سے میں بہت پریشان ہوں۔ لہذا میں اب افسری کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔2010 میں ہند مخالف احتجاجی لہر کو دبانے کی سرکاری کارروائی میں سو سے زیادہ نوجوان مارے گئے۔ حالات قدرے بحال ہوئے تو آئی اے ایس امتحانات کے نتائج آئے جن میں شاہ فیصل نے ٹاپ کیا تھا۔ ان کے بارے میں بھارت کے قومی ٹی وی چینلز پر خوب نشر کیا گیا۔ کشمیر میں اس کا اثر یہ ہوا کہ ہزاروں نوجوان سول سروسز کی طرف مائل ہو گئے۔مورخ اور دانشور پی جی رسول کہتے ہیں شاہ فیصل کو تشدد کے خلاف پوسٹر بوائے کے طور پر پروجیکٹ کیا گیا۔لیکن شاہ فیصل سوشل میڈیا پر بہت سرگرم رہے اور وہ بھارت میں لِنچنگ، گو رکشکوں کے تشدد اور کشمیر میں جاری جارحانہ ملٹری پالیسی کے خلاف اظہار خیال کرتے رہے، یہاں تک کہ حکومت نے سبھی افسروں پر سوشل میڈیا کے ذریعہ ذاتی اظہار خیال پر پابندی عائد کر دی۔بی بی سی کے ساتھ ایک مختصر گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ پہلے میں انتظامیہ کے ذریعہ لوگوں کی خدمت کرتا رہا اب سیاست کے ذریعہ بہتر انداز میں کر سکوں گا۔یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے علیحدگی پسند گروپوں کی بجائے ہند نواز سیاسی خیمے کا انتخاب کیوں کیا۔شاہ فیصل کہتے ہیں، میں نے طے بھی کیا تھا کہ میں گیلانی صاحب کی قیادت والی حریت کانفرنس میں شامل ہو جاؤں گا،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں وہاں کروں گا کیا؟ الیکشن کا وہ لوگ بائیکاٹ کرتے ہیں حالانکہ کشمیر میں تبدیلیاں الیکشن اور قانون سازی سے لائی جاتی ہیں۔ لہذا جتنا ہو سکے گا میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کرنا چاہتا ہوں۔شاہ فیصل عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ بھارت کے آئندہ قومی انتخابات میں بارہمولہ سے الیکشن لڑیں گے۔36 سالہ شاہ فیصل سرینگر سے شمال کی جانب 120 کلومیٹر کی دوری پر واقع علاقے لولاب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ایک استاد تھے تاہم انہیں نامعلوم مسلح افراد نے پچیس سال قبل قتل کر دیا تھا۔لولاب ضلع کپوارہ کا دور افتادہ علاقہ ہے اور وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد نہایت شریف النفنس انسان تھے اور ان کا کسی بھی سیاسی گروپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ فیصل کی والدہ بھی محکمہ تعلیم میں استانی کے طور پر تعینات ہیں۔فیصل کہتے ہیں، ادارے اہم ہوتے ہیں۔ اداروں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ہماری زندگیوں پر پڑتا ہے۔ وہاں قانون بنتے ہیں، قوانین میں ترامیم ہوتی ہیں۔اگر حساس لوگ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں ہوں گے تو عوام دشمن قوانین اور پالیسیاں بنیں گی۔ میں جانتا ہوں میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے، لیکن یہ آخری منزل نہیں، کل کو لگا کہ سیاست کے ذریعہ بھی کچھ نہیں ہو سکتا تو میں یہ بھی چھوڑ دوں گا۔ دوسری جانب کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر داخلہ پی چدم برم نے شاہ فیصل کے استعفے پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے سابق بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ شاہ فیصل نے جس بنیاد پر استعفیٰ دیا ہے وہ مودی سرکار کے منہ پر طمانچہ ہے ۔کشمیری آفیسر نے جو بات کی ہے اس پر ہمارے سروں کو شرم سے جھک جانا چاہیے ۔ہمارے ملک کو چند شعبوں میں نہیں مکمل ترقی کی ضرورت ہے ۔یہاں کسی کو خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیے،بھارت میں کسی شہری کو خود کو اجنبی محسوس نہیں کرنا چاہیے اور کبھی ایسا محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔