تحریر : حافظ شاہد پرویز
قوم کے اندر کا مزاج ثقافت اور روائتی طریقہ کار کا زندہ رہنا بعض معاشرتی کلچر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے بدقسمتی سے پاکستان کے معاشرتی نظام میں جہاں پر کرپشن اور لاقانونیت کا بول بالا ہے اس کے ساتھ ہی اسلامی روایات کو دہشت گرد اور دیگر ایسے مکاتب فکر کے جنہوں نے اسلام کو تشدد کے نام سے متعارف کروانے کی کوشش کی اور دنیا میں مسلمانیت کو قتل کرنے والے اور خون بہانے والی قوم کے نام سے متعارف کروانے کی ناکام کوشش کی اس کے ساتھ ہی وہی عناصر پاکستان کے اندر کے معاشی نظام کو تباہ و برباد کرنے اور سیکولرازم کو پروان چڑھانے میں بھی خوامخواہ کا کردار ادا کیا۔
اسلام کو قرآن و حدیث کی روشنی کے حساب سے جانچا جائے تو اس مذہب جیسی ہدایت انسانیت کے وقار کو بلند کرنے خواتین کی عزت سے لے کر ماں باپ بھائی بہن بیٹے بیٹی ہمسائے اور دیگر انسانیت کے حقوق کی علمبردار اسلامی ہدایات کے مقابلے میں دنیاکے کسی بھی مذہب کو اگر سامنے رکھا جائے تو انسانیت کے حقوق کی سب سے بڑی اور مضبوط تعلیمات قرآن و حدیث کی روشنی میں ملیں گی۔ چوری کرنے کی سزا سے لے کر کسی کا حقوق اللہ اور حقوق العباد کے الگ الگ قوانین اور طریقے مذہب اسلام کے اندر موجود ہیں جو کہ ایک مثبت طرز عمل تعمیری زندگی جو کہ ناصرف دنیا بلکہ آخرت کو بھی تعمیری زندگی بنانے کیلئے ضروری ہے۔
انسانیت کے وقار کو اعلیٰ سے اعلٰی مقام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے کی تمیز یہاں تک کے ہنسنے اور رونے کے وہ آداب کہ وہ طریقے کہ جس کو دنیا کے تمام مذاہب کے بڑے بڑے پیروں کاروں نے نہ صرف اخلاقی اچھائی کا سبب مانا بلکہ صحت کو مضبوط بنانے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اور خاص طور پر ایک دوسرے کی عزت اور احترام کو بلند پایا تک پہنچانے کیلئے ایک قابل عمل نمونہ ہے لیکن جب معاشرے اور قومیں اپنے مذاہب روایات سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیتی ہیں تو زوال کا ایک منفرد انداز بھی ان کو کمزوری کی جانب لے جانے کے درپے ہوتا ہے۔
جیسا کہ انڈین فلموں اور انڈین ڈراموں کا راج پاکستانی قوم کے اندر سما چکا ہے بے شک انڈیا کا کلچر جتنا زیادہ مہذب اور شاندار بنا دیا جائے تو اس کو کسی صورت بھی اسلام سے بڑھ کر اپنانے کا اخلاقی جواز پیدا نہیں ہونا چاہیے۔انڈین کلچر کو اپنانا پاکستان کے دو قومی نظریے کے بھی بالکل مختلف ہے کیونکہ پاکستان دنیا کی دوسری واحد اسلامی ریاست ہے کہ جس کو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں لایا گیا اور دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ مسلمان اپنی آزاد زندگی اس لئے گزارنے کے حق پر ہیں کہ ہماری روایات بھارت سے مختلف ہمارے ایونٹس بھارتی لوگوں سے مختلف ہیں۔
لیکن اس آزاد اور خود مختار ریاست کے اندر کہ جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں شامل ہوئیں کہ اندر آج ایک بار پھر انڈین ڈراموں اور فلموں کے ذریعے معاشرتی نظام میں بھارتی روایات اور خاص طور پر نوجوان طبقے کی زبان پر عوام کے بجائے جنتا ماوں کی زبانوں پر نئے پیدا ہونے والے بچوں کیلئے انڈین اداکاروں اور فلمبازوں کے نام رکھنا اور اپنے ذہن کے اندر اس کلچر کو سمانا کیا آج ہماری ناکامی کا سبب نہیں ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو معاشرے میں اسلامی روایات کو قائم کرنے اور حقیقی مذہب اسلام کے مطابق زندگی گزازنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
تاکہ پاکستانی قوم اپنے وقار اور عزت کو دنیا بھر میں اپنا ایک واضح مقام دلوا سکے کسی بھی مسلمانوں کی ریاست کو تاریخ کے آیئینے میں اگر دیکھا جائے تو کسی بھی مسلمان ریاست کو اس وقت تک ختم نہیں کیا گیا کہ جب تک مسلمانوں کے اندر لوگ ہی غداری کا عنصر پیدا نہ ہونے دیں۔ہمیں مضبوط اور فعال ہونے کیلئے کرپشن کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات اور دین کے انتہائی قریب ہونا بھی ضروری ہے۔
تحریر : حافظ شاہد پرویز