تحریر: عارف محمود کسانہ
بھارتی دانشور اور مدبر سیاسی رہنما خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر متحدہ ہندوستان کے دور میں کانگریس کی قیادت تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرتی اور مسلمانوں کے جائیز حقوق تسلیم کرلیے جاتے تو آل انڈیا مسلم لیگ کبھی بھی پاکستان کا مطالبہ نہ کرتی۔ہندو ؤں کے اسی تنگ نظر رویئے کے باعث سر سید ہندو مسلم اتحاد سے مایوس ہوگئے اور ہندو مسلم اتحاد کے پیامبر جناح نے کانگریس کو چھوڑا۔نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد اعظم کو کیوں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کرنے پڑے۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے کیوں کانگریسی وزارتوں کے خاتمہ پر یوم نجات منایا۔ غیر جانبدارانہ مبصرین تو ایک طرف اب خود بھارتی رہنماء اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں کہ کانگریس کے مسلمانوں سے سے متعصبانہ اور غیر منصفانہ رویہ کی باعث اسلامیان ہند الگ وطن کے حصول کے لیے سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ مارچ ۱۹۴۰ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور اسے قراد لاہور پیش کرنا پڑی۔قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت اس کے بعد بھی کسی آبرومندانہ حل کی صورت میں مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار تھی اسی لیے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں کامیابی کے باوجود انہوں نے مطالبہ پاکستان کی بجائے وزارتی مشن کی تجاویز قبول کرلیں جسے کانگریس نے تسلیم نہ کیا جس کا نتیجہ برصغیر کی تقسیم پر منتج ہوا۔
اب ایک بار پھرموجودہ بھارتی قیادت او انتہا پسند ہندو ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ دنیا میں گائے کے گوشت کا سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک کس طرح اس کے ذبح پر جبری نہ صرف پابندی لگا رہا ہے بلکہ اس کی آڑ میں وہاں کے مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔گائے کے گوشت کے حوالے سے بھارت میں بہت سے واقعات میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے۔اتر پردیش کے محمد اخلاق کو اسی شبہ میں شہید کردیا گیا ۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں انجنیئر رشید پر اسمبلی میں تشدد اور حملہ کرکے بھارت نے اپنے نام نہاد سیکولرازم کی قلعی کھول دی ہے۔
یہ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ یہ ہے وہ بھارتی سیکولر ازم جس کا راگ الاپا جاتا ہے اور جس کی تعریف پاکستان میں بیٹھے کچھ نام نہاد دانشور بھی کررہے ہوتے ہیں۔ بھارتی سیکولرازم کے حامی اور حقوق انسانی کے حامی اب کیوں خاموش ہیں۔ محمد اخلاق کا خون رائیگان نہیں جائے گا بلکہ اُس نے ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔یہ پاکستان بھی اُسی طرح وجود میں آئے گا جیسے موجودہ پاکستان کے قیام کے لیے انہوں نے خود راہ ہموار کی تھی۔
انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد جو تقسیم ہوئی وہ کوئی مستقل اور پائیدار حل نہیں تھا بلکہ حالات نے ثابت کیا ہے کہ اصل حل وہی ہے جو چوہدری رحمت علی نے پیش کیا تھا کہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں وہاں انہیں وخودمختار مملکت ملنی چاہیے۔ اسی منصوبہ کے تحت انہوں نے شمال مغرب کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا نام پاکستان تجویز کیا۔ بنگال، بہار اور آسام والوں کے لیے بانگستان اور حیدرآباد دکن کے لیے الگ ملک عثمانستان ہو۔ انہوں نے مالوہ، بہار اور آگرہ کے مسلمانوں کے لیے ممالک کے نام صدیقستان، فاروقستان اور حیدرستان تجویز کئے۔
اگرچہ تقسیم ہند کے وقت اْن کا یہ منصوبہ پورا نہ ہوسکا لیکن بھارتی قیادت کی تنگ نظری اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات کے ردعمل میں مستقبل میں پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ بھارت کے وجود سے کئی اور پاکستان جنم لیں گے جس کے لیے حالات وہاں کے انتہا پسند ہندو خود رپیدا کررہے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کے عوام بھی تاج آزادی پہنیں گے اقوام عالم میں فخر سے سر بلند ہوں گے۔
بہت سے بھارتی مسلمانوں سے جو وہاں اعلیٰ عہدوں فائیز ہیں اُن سے مجھے ذاتی طور پر ملنے کا موقع ملا ہے اور وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں ہر سطح پر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑتا ہے ۔ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔بھارت کے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کے لیے کرایہ پر گھر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ جب وہاں کی دیواروں پر یہ نعرہ لکھا جائے گا کہ ” مسلمانوں جاؤ پاکستان یا قبرستان“ توبھارتی مسلمان پاکستان آنے کی بجائے وہاں اپنے لیے الگ پاکستان حاصل کی ہی جدوجہد کریں گے۔ چشم فلک ایک نہیں کئی اور نئے پاکستان برصغیر کے نقشے پر دیکھ رہی ہے۔
تحریر: عارف محمود کسانہ