تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ایک سطری انتہائی خطرناک خبر نے بھارتیوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑا رکھی ہے اور پوری دنیا بھی تھر تھر کانپنے لگی ہے۔ خبر یوں ہے کہ”بھارت کے ایٹمی پاور پلانٹ سے مضر شعاعوںکا اخراج ہوہا ہے”یہ بات بھارتی ایٹمی صلاحیت پر عدم اعتماد پیدا کرتی ہے۔اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ بھارتی ایٹمی سیاستدان لاپرواہ بھی ہیں اور ان کی بد احتیاطیوںسے ایٹمی تحفظی اقدامات کا انتہائی ناقص ہونا ثابت ہوتا ہے۔ان کے ایٹمی سائنسدان یا تو خود کشی کرچکے ہیںیا انھیں قتل کردیا گیا ہے یہ انہونی صورتحال بھارت کے اندرونی خلفشاراور افرا تفری کا بین ثبوت ہے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے محفوظ ترین ہونے کی وجہ سے دنیا ہمیں سراہتی ہے ان کے پروگرام سے کسی نہ کسی بڑے حادثے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ گو بھارت کے پاس پاکستان سے 20گنا زیادہ ایٹمی مواد ہے مگر تکنیکی طور پرمحفوظ نہ ہونے کی وجہ سے بالکل ایسا ہے جیسے اپنے بیل کے سینگ سے کسان خود اپنا ہی پیٹ پھڑوا بیٹھا تھا۔
بھارتیوں کو پوری دنیا یہی پیغام دیتی محسوس ہوتی ہے کہ”تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”یعنی تم تو ایٹم بم دکھا کر دنیا کو ڈراتے ہو یااسے چلا کر سبھی کو خاکستر کرڈالنا چاہتے ہو مگر دراصل تو تم خودایٹمی بھٹی کے دہانے پر غیر محفوظ بیٹھے ہو۔جو کسی بھی وقت تمہیں کروڑوں کی تعداد میں ہلاک کرسکتا ہے۔ بھارتیوں نے ایٹمی مواد جہاں دفن کر رکھا ہوگا وہ لازماً ایسی جگہ ہو گی جہاں پر ہندو مہاشوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بالخصوص مسلمان قطعی نہ رہتے ہوں گے۔تاکہ کوئی دوسرا قابض نہ ہو سکے۔مگر یہ بات بھی ان کو الٹی جا پڑتی ہے کہ اگر ان کا “صاحب بہادر”پھٹ بھی جائے تو مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہو گا۔ بھارتی نفرت انگیز تحریکوں کی پرورش کر رہے ہیں۔شدھی سنگھٹن کی طرز پر” گھر واپسی مہم”،ہندو تواجیسا غلیظ دھندا، بھارت ماتا کے ٹکڑے جوڑنا یعنی بقیہ پاکستان کو بھی اپنی غلامی میں لینا،چینی تعاون سے بننے والی اقتصادی راہداری کے خلاف بھیانک عزائم رکھنا۔
گوادر کے مقابلے میں چاہ بہارپورٹ کی مالی امداد گو کانگرس سیکولر ہے مگر اندرونی طور پر گہری مسلم دشمنیاں کرتی ہے ۔جب کہ بی جے پی کی تو اسلام کے خلاف نفرت انگیزیاں واضح ہیں۔بابری مسجد کا انہدام اور رام بندر بنانے کی کوششیں دراصل اسلامی عقائد پر گہرے گھائو لگانے کے متراد ف ہیں۔سری لنکا ،نیپال،بھوٹان بنگلہ دیش ،میانمار،افغانستان کے بارے میں مسلسل ناپاک توسیع پسندانہ سرگرمیاں دنیا پر عیاں ہیں۔مسلمانوں اور بھارتیوں کے موقف میں زمین و آسمان جتنا فرق ہے ۔ہندو تو ماتا کے ٹکڑے واپس اکٹھے کرنا چاہتے ہیں۔اور مسلمان جو 700سال وہاں حکمران رہے اور ان کی بیواقوفیوں سے انگریز ناجائز طور پر قابض ہوئے۔اور جاتے ہوئے بالآخر نا انصافی کرکے مسلمانوں کو1/5اور بھارتیوں کو4/5حصہ بانٹ گئے۔یہ بندر بانٹ تھی جو ہمیں قطعاً قبول نہ تھی مگر باامر مجبوری ہم راضی ہوئے۔جموں و کشمیرو دیگر کئی مسلم اکثریتی ریاستوں پرہندو بنیے ناجائز طور پر قابض ہوگئے۔
بعد میں ان کے نزدیک اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پرِکاہ جتنی بھی حیثیت نہیں۔جس طرح سے بھارتی بالخصوص ہندو مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں امکان اغلب یہی ہے کہ کسی مظلوم بچی کی چیخ و پکار عرش معلی سے ٹکرائی تو عقل کے اندھے ہندو بنیوں سے ہی غلطی ہو جانے پر یا پھر جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ ایٹمی مدفون علاقوں سے زہریلا مواد خارج ہو رہا ہے سب کچھ پھٹ پڑے گا۔اور خود کارے را جواب نیست کی طرح سب کچھ جل بھن جائے گاکہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے اس میں وہ خود ہی گرتا ہے ۔جو ہمارے مارنے کا سامان تیار کیے بیٹھے ہیں خدا کی غیرت نے جوش مارا تو خود ہی اپنے ایٹمی پاور پلانٹ کواپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کرکے خود ہی ہلاک ہو کر رہیں گےمضر شعاعوں کا نکلنا کوئی کم تباہی نہیں ہے جسے وہ اب تک بلاک نہیں کرسکے۔اس کی بنا پربھی لاکھوں افراد عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہور ہے ہیں حتیٰ کہ اس ہندو اکثریتی علاقے میں بچے کئی نسلوں تک عجیب شکل و ڈھنگ کے پیدا ہوتے رہیں گے۔
جنگی جنون پیدا کرنے والے ہندو مہاشوں کو1965کی جنگ کا مزہ ابھی تک نہیں بھولا گااب کی بار باز رہیں تو ہی بہتر ہے۔1971میں بنگلہ دیش اپنوں کی غلطیوںاوریحییٰ خان کا اقتدار اپنے ہی پاس رکھنے کے لالچوں کا نتیجہ تھا ۔مزید تفضیل کی بابت علیحدہ بات ہو گی مسلمانوں کے جذبوں ولولوںکو آج تک کوئی شکست نہیں دے سکا جب تک خود ہم میں غدار اور غلیظ حرکتیں کرنے والے دشمنوں کے ایجنٹ پیدا نہ ہو جائیں۔ایسانہ ہو توامریکہ ہو یا روس ،برطانیہ یا بھارت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے1971میں ایک لاکھ سپاہ مزید چھ ماہ تک لڑ سکتی تھی مگر ہمارے فوجی حکمران کو مغربی پاکستانی لیڈر شپ سے اندرونی سازشوں کی تکمیل کے لیے جلدی پڑ گئی اور آدھا ملک خود ہی گنوا ڈالا۔
سلامتی کونسل میں پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد کو پھاڑ ڈالنا کیا واضح کرتا تھا؟ جنگی اسلحہ کی بہتات ایک فیکٹر ضرور ہے مگر جنگ جذبات ،احساسات ولولوں اور دل کی صحیح دھڑکنوں کا نام ہے۔مسلمان کفر سے لڑتا ہے تو مجاہد یا شہید کہلاتا مگر کافر موت سے سے ڈرتا ہے بھارتیوں کا بزدلوں کی نانی اماں ہو نے کا بھلا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ ایک کبوتر اڑ کر بارڈر کراس کرگیا تو مہینوں اسے ایٹمی مواد سمجھ کر تحقیقات جاری رکھی گئیں۔افراد کے حوصلوں سے جنگ لڑی جاتی ہے خود اسلحہ نہیں لڑتا بلکہ جس آدمی کے ہاتھ میں ہو وہ لڑتا ہے۔
(it is not the gun it is man behind the gun)
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری