تحریر: علی عمران شاہین
ملکی سیاست میں ان دنوں پاناما لیکس کے بعد بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق حسین رئیسانی کے گھر سے 70 کروڑ نقدی برآمد ہونے کے معاملے پر خوب ہلچل ہے۔ ہر کوئی انہی مسائل پر بات کر رہا ہے، اس پر اپنی اپنی سیاست چمکانے اور حمایت حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن حیران کن طور پر وطن عزیز کو درپیش ان چیلنجز کا کوئی نام لینے کو تیار نہیں جن کی وجہ سے اصلاً ہماری بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن بہت خطرناک عفریت ہے، اس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ ملک کی دولت کو لوٹ کر اپنے پاس رکھنا یا بیرون ملک منتقل کرنا کسی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں جو بھی ملوث ہو، اس کے خلاف آئین و قانون کے تحت کارروائی از حد ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ملک کی سرحدوں کو لاحق خطرات کی جانب روئے سخن موڑا جائے۔
اس وقت جہاں باہم دست و گریبان ہیں تو ہمارا سب سے بڑا دشمن بھارت ہمیں دنیا بھر میں یکتا و تنہا کر کے ہماری سرحدوں اور ہمارے ملک کے اندر بھی ہمارے اوپر حملہ آور ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت جماعة الدعوة اور اس کے قائدین کا نام لے کر اقوام متحدہ میں پاکستان کو عالمی دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لئے سرگرم عمل تھا۔ اس وقت سلامتی کونسل اور آسٹریلیا میں ایک عالمی تنظیم کے اجلاس میں چین نے قراردادیں ویٹو کر کے ہمیں بھارت کے اس گھنائونے وار سے بچایا تھا۔ اس وقت بھارت ایک اور پاکستانی شخصیت مولانا مسعود اظہر کا نام لے کر دنیا بھرمیں پاکستان مخالف مہم چلا رہا ہے۔ مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی دہشت گرد شخصیات میں شامل کرانے کی بھارتی کوشش بھی چین نے ویٹو کے ذریعے ناکام بنا دی۔ چین کے اس اقدام پر پہلے بھارت نے چین سے احتجاج کیا، جب دال نہ گلی تو اب عالمی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بھارت جانتا ہے کہ اگر اس طرح پاکستان کی تنظیموں اور افراد کو اقوام متحدہ اور امریکہ کے ذریعے دہشت گرد قرار دلوانے میں کامیاب ہوتا رہا تو پاکستان خود بخود تنہا ہوتا جائے گا۔ مولانا مسعود اظہر تو عرصہ دراز سے منصۂ شہود سے غائب ہیں۔ وہ اس وقت کہاںہیں؟ اس بارے میں پاکستان کے اعلیٰ حکام بھی لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن بھارت اس کے باوجود پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اس کے مقابل ہم اپنا حال دیکھ لیں کہ ہمارے دفاعی اداروں نے بھارتی فوجی افسر کل بھوشن یادیو کو گرفتار کیا۔ اس کے اعترافات دنیا بھر کے سامنے لائے، لیکن ہمارے ہاں سارے ہی سیاسی طبقات اس سنگین و حساس ترین معاملے پر خاموش دکھائی دیئے۔ حد تویہ ہوئی کہ کل بھوشن یادیو کے نیٹ ورک کے کئی کارندے پکڑے جانے کے بعد اب کراچی سے ایک اور بھارتی شہری کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو کہ عرصہ دراز سے ”را” کا نیٹ ورک ہی چلا رہا تھا۔ اس نے اپنے 6 ساتھیوں کے نام بھی بتا دیئے ہیں اور اس سے بھارتی پاسپورٹ سمیت حساس دستاویزات بھی برآمد ہوئی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارت نے ایران میں جو نیٹ ورک قائم کیا ہے اس کے حوالے سے بھی خبریں مسلسل سننے کو ملتی رہیں حتیٰ کہ عزیر بلوچ کے بارے میں بھی سامنے آنے والی جے آئی ٹی میں بتایا گیا کہ اس کے پاس ایرانی پاسپورٹ اور دبئی جانے کے لئے اس پر ایرانی ویزہ لگا ہوا تھا۔ ایران نے کہا کہ وہ اپنے ملک میں ”را” کے اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور چھاپے مار رہے ہیں۔ رواں ہفتے ہی پاک رینجرز نے واہگہ بارڈر کے علاقے میں بھارتی سمگلرز کی ایک کارروائی کو ناکام بنایا جس میں وہ پاکستان کے اندر شراب پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاکستانی رینجرز حکام نے بتایا کہ ان کی فائرنگ سے 2بھارتی سمگلرز ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ واقعہ کے بعد ان سمگلرز کے قبضہ سے ملنے والی شراب بھی میڈیا کو دکھائی گئی۔ اس کے ساتھ ہی خبر ملی کہ بھارت ہمارے دریائے چناب پر مزید ڈیم بنا کر ہمارا پانی بند کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ بھارت نے دریائے چناب کو خاص طور پر اپنا نشانہ بنا رکھا ہے اور اس دریا پر توڑ پھوڑ کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کا سب سے خطرناک منصوبہ 47کلومیٹر طویل سرنگ کھود کر دریا کے پانی کا رخ ہی اپنی طرف موڑنا ہے جس کے لئے باقاعدہ طور پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اگر دریائے چناب کے پانی کا رخ ہی موڑ دیا گیا تو ہمارے لئے پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ وطن عزیز میں پانی کی کمی کی صورتحال پہلے ہی ہمارے سامنے ہے۔ دریائوں میں پانی کی کمی کے باعث سندھ کا ساحلی ڈیلٹا ہمارے ساحلوں کے اوپر چڑھ آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس حوالے سے کراچی میں ماہرین کی ایک کانفرنس بھی ہوئی کہ سمندر کا پانی جس طرح ہمارے ساحلوں کی طرف بڑھ رہا ہے اس سے کراچی جیسے شہر کو بھی خطرات لاحق ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں بھارت کی ہی تو ہیں اور اس حوالے سے ہمارے ہاں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔ بھارت ہمارے خلاف امریکہ کو بھی ہر روز بھڑکاتا ہے۔ ہمارے ایف سولہ طیاروں کا معاملہ ہو یا امریکہ سے اتحادی فنڈ کی ترسیل، افغانستان میں ہمارے مفادات کی جنگ ہو یا ہمارے چین کے ساتھ تجارتی روابط اور اقتصادی راہداری کی تعمیر کا معاملہ، بھارت ہر جگہ ہی امریکہ کے ذریعے ہمیں دبائو میں لانے اور ہمارے مفادات رکوانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہماری قوم اور ہمارے سیاستدان و حکمران صرف ایک ہی معاملہ کو سامنے رکھ کر اس کے حوالے سے ساری سیاست اور پالیسیاں نہ بنائیں اور نہ چلائیں۔ پانامہ لیکس ہو یا کرپشن، یہ جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا معاملہ ہے۔
ہر جگہ ہی اسے حساس سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسا مرض نہیں کہ جو آج ظہور پذیر ہوا ہے اور ہم اس کے حوالے سے اس قدر چیں بہ جبیں نظر آ رہے ہیں کہ جیسے ہم نے وہ ”بلا” پکڑ لی ہے کہ جو ہمارے ملک کو لاحق ہر خطرے کی بنیاد ہے۔ اگر ہم نے اسے ٹھیک کر لیا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور پاکستان دنیا کا ہر لحاظ سے طاقتور ترین ملک قرار پائے گا۔ پانامہ لیکس میں جن جن ممالک یا شخصیات کے نام آئے ہیں، ہر جگہ ہی اس حوالے سے مناسب اقدامات اٹھائے اور پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں لیکن کوئی ملک بھی س وجہ سے اپنے دفاع اور خطرات ہر دیگر عوامل سے آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ گیا جس طرح ہم بیٹھ گئے ہیں۔ بھارت جہاں ہمارے وجود کو مٹانے کے لئے ساری صلاحیتیں اور قوت صرف کر رہا ہے وہیں اس نے کشمیریوں کے قتل عام کو بھی تیز تر کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، معصوم کشمیری موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ بچے جیلوں میں ٹھونسے جا رہے ہیں، انتہائی خطرناک ہتھیار اور زہریلی گیس تک استعمال کر کے ایک نسل کو اپاہج اور معذور بنایا جا رہا ہے اس پر دنیا میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں سعودی عرب اور ترکی کی حمایت سے پاکستان کو بھارت کے خلاف ایک قرارداد پاس کرانے کا موقع آیا تو بھارت اس سے سخت پریشان نظر آیا۔
اب ہمیں بھارت کے خلاف اس کے ان تباہ کن اقدامات کے مقابلے کیلئے عالمی سطح پر مہم چلانا ہو گی۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس حوالے سے زبانوں پر لگے تالے کھولنا ہوں گے۔ پاکستان کے ایوانوں پر اقتدار کے خواب دیکھنے اور اس کے لئے دن رات تڑپتے، جدوجہد کرتے طبقات کو پاکستان کی سرحدات کو لاحق خطرات اور اس کے اندرونی، بیرونی، علاقائی اور عالمی سطح پر پھیلے دشمنوں کی طرف بھی نظر التفات ڈالنا ہو گی اور ان کے تدارک کے لئے ٹھوس لائحہ عمل اور حکمت عملی بنانا ہو گی۔ بھارت کے حوالے سے اگر ہماری یہ مجرمانہ خاموشی اور سکوت نہ ٹوٹا تو اس کا خمیازہ ہماری نسلیں پہلے بھی بھگت رہی ہیں اور آئندہ بھی بھگتتی رہیں گی۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375