تحریر : طارق حسین بٹ
صدیوں کے سفر میں پاک و ہند کی جس پر کشش اور جاندار تہذ یب اور تمدن نے جنم لیا وہ دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بنا تبھی تو دنیا بھر کے ممالک نے سونے کی اس چڑیا کو فتح کرنے کے خواب سجائے۔محمد بن قاسم کی قیادت میں جو اسلامی لشکر سب سے پہلے برِ صغیر کی دھرتی پر اترا اس میں اسلام کے برابری اور مساوات کے سنہری اصول یہاں کی ذات پات سے آلودہ سوسائٹی میں ایک نور بن کر ابھرے اور اہلِ ہندوستان نے انھیں اپنے سینے سے لگایا۔عوام نے دیوانگی کی حد تک ان نئے نظریات سے اپنی وابستگی ظا ہر کی اور جوق در جوق اس نئے دین میں شامل ہو گئے جس کی آواز عرب کے صحراﺅں سے اٹھی تھی ۔کفرو الحاد کے اند ھیروں میں توحید کی شمع کا روشن ہوجانا بڑا ہی غیر معمولی واقعہ تھا جس نے برِ صغیر کے قدیم تہذ یب و تمد ن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اسے ایک نئے کلچر اور تہذیب و تمدن سے بدل دیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور ہندو یہاں کی دو مضبوط اکائیاں بن کر سامنے آئے اور اسلام ا س خطے میں جس تیزی سے پھیلا اس کی کوئی دوسری مثال ملنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ہندو ازم کے گہوارے میں ایک ہزار سال تک حکومت کرنا کوئی معمولی معرکہ نہیں ہے لیکن مسلمانوں نے اپنی قوتِ بازو اور اعلی اصولوں کی بدولت ایسا ممکن کر دکھایا ۔ہندو مسلم تفریق سدا سے برِ صغیر کی پہچان رہی ہے اور اس تفریق کو کوئی بھی حکمران ختم نہیں کر سکا۔ یہ سچ ہے کہ دونوں طبقے کئی صدیوں تک باہم یکجا ایک دوسرے کے ساتھ ہندوستان کی حدود میں رہے
لیکن اس وقت ریاستیں خود مختار ہو تی تھیں لہذا کسی علاقے میں ہندو حکومتیں تھیں جبکہ کئی علاقوں میں مسلمان حکومتیں تھیں اور ساری حکومتیں اپنی اپنی جگہ خود مختار تھیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ دہلی کی حکومت ہی پورے ہندوستان کی حکومت تصور ہوتی تھی حا لانکہ اس کا اپنا حلقہ بھی کافی مختصر ہوتا تھا وہ پورے ہندوستان پر حاکم نہیں ہوتی تھی ۔انگریزوں کے برِ صغیر میں اپنی حاکمیت قائم کرنے سے قبل یہاں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے ہندوستان کے ایک وسیع رقبے پر سکھ حکومت بھی قائم کی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی مغلیہ سلطنت قائم تھی اگر چہ کافی کمزور ہو گئی تھی۔یہ تو انگر یز تھے جھنوں نے سکھ حکومت کو ختم کر کے اپنی حکومت قائم کی تھی اور مغلیہ خاندان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون جلا وطن کر دیا تھا۔مسلمانوں کے خلاف مرہٹوں،ہند وﺅں اور سکھوں کی باہمی یگانگت سے بھی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ وہ سارے طبقے اور مذاہب مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ تھے اور انھیں بیرونی قوم تصور کر کے انھیں نا پسند کرتے تھے ۔ میرے کچھ کٹر پنجابی دوست محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے ناموں سے بھدکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی انھیں کڑوی کسیلی بھی سنا دیتے ہیں تو ذرا سوچئے کہ غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمان حکمرانوں اور حملہ آوروں کے خلاف ان کی نفرت کس درجہ کی ہو گی؟
۴۱ اگست در اصل ان دونوں قوموں کی شناخت کا دن تھا۔مسلمان خود کو ہندوﺅں کی اکثریت کے سامنے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے ۔اس لئے انھوں نے علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کر دیا اور شمال مغربی علاقوں اور مشرقی بنگال پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان معرضِ وجود میں آئی۔لیکن سوال یہ پیداہوا کہ کروڑوں مسلمان جو بھارت میں رہ گئے ان کا مستقبل کیا ہوگا؟۔یہ سچ ہے کہ متحدہ ہندو ستان کی صورت میں مسلمانوں کو ہندوﺅں کی برتری کو برداشت کرنا پڑ تا جس کے پیشِ نظر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔مولانا ابو الکلام آزاد،مولا حسین احمد مدنی،سید عطا اللہ شاہ بخاری،علامہ عنائیت اللہ مشرقی اور خان عبدالغفار خان (باچہ خان) دو قومی نظری کے شدید مخالف تھے ۔وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک ہو گا اور ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہو گی۔
تقسیمِ ہند کا معرکہ کافی طاقتور بھی تھا اور ہندو قیادت کی خواہشات کے خلاف بھی تھا لہذا اس نے دونوں قوموں میں شکو ک و شبہات کے جن جذبوں کو ہوا دی تھی وہ بڑے تند تھے۔ جذبات کی تندی نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا خلاف کھڑا کر دیا جو ہنوز اسی طرح جاری ہے۔جب تک تحریکِ آزادی کے مشاہیر زندہ تھے نفرتوں کی یہ خلیج اتنی گہری نہیں تھی لیکن ان سب کے رخصت ہو جانے کے بعد یہ خلیج بہت گہری ہوتی جا رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کا رہنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔نریندر مودی کی حکومت میں تو مسلمان آزمائش کی سولی پر لٹک رہے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے قتلِ عام میں نریندر مودی بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ گجرات کے وزیرِ اعلی کی حیثیت سے انھوں نے جس طرح مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ان کے اسی قتلِ عام کی وجہ سے ا یک زمانے میں امریکہ نے انھیں ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھالیکن نریندر مودی پر اس پابندی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔اس نے جو کچھ کرنا تھا وہ کرتا رہا اور مسلمان اس کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہے۔شیو سینا اور دوسری شدت پسند تنظیمیں انھیں ہلہ شیری دیتی رہیں اور اس کی انتظامی صلاحیتوں کے گن گاتی رہیں۔اس کی وزارتِ عظمی تک پہنچنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔لال کشن اڈوانی بی جے پی میں نمبر ون پوزیشن رکھتے تھے اور وزارتِ عظمی کے مضبوط امیدوار تھے
لیکن شدت پسند تنظیموں اور بڑے بڑے کاروباری حلقوں کو ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوتے اور وہ شخصیت نریندر مودی کے علاوہ کوئی دوسری کیسے ہو سکتی تھی؟۔نریندر مودی بی جے پی کے امیدوا بنے تو پھر ان کی جیت بھی یقینی تھی کیونکہ کانگریس اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں کافی غیر مقبول تھی اور عوام تبدیلی کا خواب دیکھ رہے تھے۔،۔بابری مسجد کا انہدام ہندو مسلم نفرتوں میں شعلہ جوالہ بن کر سامنے آیا۔عجیب اتفاق ہے کہ بابری مسجد کا سانحہ بھی کانگریسی حکومت میں سامنے آیا۔اس وقت نرسہما راﺅ بھارتی وزیرِ اعظم تھے اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادیو کی حکومت تھی ۔ملائم سنگھ یادیو واحد ہندو لیڈر تھا جو مسجد کے انہدام کے خلاف تھا ۔ اس کی اسی جراتِ رندانہ پر اسے طنزیہ مولوی ملائم سنگھ بھی کہا گیا تھا۔مسلمانوں نے کئی سالوں تک ملائم سنگھ یادیو کو مسجد پر اپنے جرات مندانہ موقف کی وجہ سے ووٹ دئے تھے۔اب بھی اس کا بیٹا اتر پردیش کا وزیرِ اعلی ہے۔لال کشن اڈوانی رتھ بان کی حیثیت سے بابری مسجد کے انہدام میں پیش پیش تھے۔ہندوﺅں کا نعرہ تھا کہ کئی صدیاں قبل رام مندر کی جگہ بابری مسجدزبردستی قائم کی گئی تھی لہذا وقت آ گیا ہے کہ اس ے گرا دیا جائے اور اس تا ریخی زبر دستی کا بدلہ لیا جائے ۔ماضی میں یہ بی جے پی کا مقبولِ عام نعرہ تھا اور اس نعرے نے ہندو شدت پسندوں کے سینوں میں آگ لگائی ہوئی تھاوروہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔بابریی مسجد کے انہدام کے وقت تقسیمِ ہند کے مناظر ایک دفعہ پھر دہرائے گئے کیونکہ مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر ٹارچر کیا گیا۔مسلم کش فسادات سے انھیں یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت ہندوﺅں کا ملک ہے لہذا یہاں سب کچھ انہی کی مرضی کے مطابق ہی طے پائےگا۔جھنیں یہ گوارا نہیں ہے
ان کےلئے پاکستان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں وہ پاکستان چلے جائیں اوراپنے دل کی آواز پر اپنی پوجا پارٹ کی تسکین کر لیں۔کانگریس گو کہ مسلمانوں کے احساسِ محرومہی کا ازالہ تو نہ کر سکی لیکن اس زمانے میں مسلمانوں کا اس طرح سے اتحصال نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی کوئی انھیں پاکستان جانے کے طعنے دیتا تھا۔کانگریس کوعلم تھا کہ مسلمان اس کا حلقہ ووٹ ہے اور انہی کی پشت پناہی سے وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے لہذا مسلمانوں کو کانگریس سے بی جے پی کی طرح کی بے رخی کا سامنا نہیں تھا ۔مسز اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی کی ہلاکت سے گاندھی خاندان بالکل ختم ہو گیا تھا۔اب کانگریس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جو مسلمانوں کی دلجوئی کر سکتا لہذا نھیں مجبورا نرسہما راﺅ پر تکیہ کرنا پڑا اور پھر رہی سہی کسر من موہن سنگھ نے پوری کر دی۔۔ہندوترا کا نعرہ بی جے پی کی فتح کی بنیاد تھا کیونکہ ہندو اس کی پشت پر کھڑے تھے ۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ