تحریر : علی عمران شاہین
بابا رام دیو بھارت کی وہ جانی پہچانی شخصیت ہے جو دنیا بھر میں ہندو مذہبی ورزش یعنی یوگا کے لئے مشہور ہے۔ بھارت یوگا کی ہندو مذہبی مشق کو دنیا بھر میں ہر جگہ پہنچانے کے لئے متحرک ہے تو بابا رام دیو اس کا سربراہ ہے۔ بھارتی ریاست ہریانہ میں پیدا ہونے والا رام دیو دنیا بھر میں یوگا کیمپ منعقد کرتا ہے جن میں بڑی تعداد میں لوگ خاص طور پر ہندو شریک ہوتے ہیں۔
امن، محبت اور باہم یگانگت کا درس دینے والے رام دیو نے گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت میں جاری اسلام مخالف مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔3اپریل کو بابا رام دیو نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”ہم بھارت کے دستور کا احترام کرتے ہیں ورنہ ”بھارت ماتا کی جئے ”کا نعرہ نہ لگانے والے لاکھوں سر کاٹ دیتے۔” جس روزبابا رام دیو کا یہ بیان سامنے آیا، اسی روز بھارتی ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندفڈنویس نے بیان داغا کہ جو بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ نہیں لگاتا اسے ملک میں رہنے کوئی حق نہیں۔ان دو بیانات سے صرف چار دن پہلے کی بات ہے کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے بیرونی علاقہ بیگم پورہ اور اسکے ایک پارک میں چند ہندو نوجوان ایک ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی میں مصروف تھے کہ اچانک ان کی نظر سامنے سے گزرتے تین مسلمان لڑکوں پر پڑی۔ تینوں دینی مدرسہ کے طالب علم تھے، اس لئے انہیں پہچاننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی کہ وہ مسلمان بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ شراب کے نشے اور مستی میں دھت ان نوجوانوں کو ایک نیا مذاق سوجھا اور انہوں نے مسلمان لڑکوں کا پیچھا شروع کر دیا۔
تھوڑی دیر پیچھے چلنے کے بعد انہوں نے تینوں کو گھیر لیا۔ ان کے سر سے پہلے ٹوپیاں اتاریں،انہیں پائوں میں مسلا اور اور پھر انہیں کہنے لگے کہ ”بھارت ماتا کی جئے ” اور ”جئے ماتا” کے نعرے لگائو… نعرے لگوانے والے بھی جانتے تھے کہ انکار ہی ہو گا، سو انہوں نے انکار سے پہلے ہی تینوں کو لاتوں مکوں اور گھونسوں پر رکھ لیااور ان سب کو بری طرح مارنا شروع کر دیا۔ آس پاس دیکھنے والے سبھی لوگ خاموش تماشائی تھے کہ مار جو مسلمانوں کو پڑ رہی ہے اور مارنے والے ہندو اور شراب کے نشے میں دھت بھی ہیں۔ ایک ہندو نوجوان کے ہاتھ میں ڈنڈا آ گیا، اس نے اس ڈنڈے سے ایک نوجوان کا (جس کا نام محمد دلکش تھا) ڈنڈا مار کربازو توڑ ڈالا۔ تینوں لڑکے اسی لہولہان حالت میں بھاگتے بھاگتے اپنی اس قریبی مسجد و مدرسہ میں پناہ کے لئے پہنچے جہاں وہ پڑھتے تھے۔
یہ واقعہ آج کے بھارت کی اصل حکمران پارٹی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد پیش آیا جس میں بھاگوت نے کہا تھا کہ ملک کی نئی نسل کو ”بھارت ماتا کی جئے” کا نعرہ لگوانا سکھایا اور اس کی عادت ڈالی جائے۔ بی جے پی کے رکن لوک سبھا یوگی آدتیہ نے کہا کہ جو لوگ یہ نعرہ نہ لگائیں انہیں پاکستان بھیج دیا جائے۔ بی جے پی کے جنرل سیکرٹری کیلاش وجے درگیہ نے کہا ہے کہ جو لوگ یہ نعرہ نہیں لگانا چاہتے انہیں ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے…
مسلمان کہتے ہیں کہ وہ یہ نعرہ نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ نعرہ شرک پر مبنی ہے کہ وہ بھارت کی زمین کو اپنا خدا مان رہے ہیں، سو وہ اس سے انکار کرتے ہیں۔ یہی بات اب دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں کہی گئی ہے کہ یہ نعرہ ناقابل قبول ہے۔ بھارت ماتا دیوی کو یہ لوگ ہندوستان کی مالک و مختار اور متصرف سمجھتے ہیں، یہ عقیدہ بلاشبہ شرکیہ ہے۔ اسلام کے ماننے والے مسلمان کبھی وحدانیت کے خلاف اس نعرے پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ”بھارت ماتا کی جئے ” کے نعرے لگانے والے کے نزدیک اس کے مفہوم میں وطن کی پوجا و پرستش شامل ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ اس فتویٰ کی تائید جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کی اور کہا کہ وہ یہ مشرکانہ نعرہ لگانے کی حمایت نہیں، مخالفت کرتے ہیں۔
”بھارت ماتا کی جئے” کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس نعرے بلکہ اس کے ساتھ ”وندے ماترم” کا آغاز سرزمین بنگال سے کیا گیا تھا۔ 1882ء میں بنگال کے بنکم چندر چیٹرجی نے ایک ناول لکھا تھا جس کا نام آنند مت تھا۔ اس کتاب نے ہی دنیا و وطن کو خدا تصور کرنے کا نظریہ دیا تھا۔ وندے ماترم اور بھارت ماتا کی اصطلاحیں اسی کتاب سے اخذ کی گئی ہیں۔ بنگال میں دُرگا کے علاوہ ایسی کئی ماتائیں ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے نظریات رکھنے والے ان افراد کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ سب بھارت ماتا کی اولاد ہیں اور ان کے نزدیک نہ صرف ملک بلکہ سورج، آگ، زمین اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ان سے وابستہ ہر ایک چیز پوجا و پرستش کے لائق ہے۔ اسی عقیدت کے تحت ہندو مذہب کی کتابوں میں ان کے بھگوانوں کی تعداد 33کروڑ تک لکھی گئی ہے۔
اب بھلا یہ سب ایک مسلمان کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ لیکن بھارت کا کٹرہندو نظریہ انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہہندوئوں کی مرضی کے نعرے لگائو یا پھر پاکستان جائو یا قبرستان جائو۔ وندے ماترم کا مطلب بھی یہ ہے کہ ”اے ماں ! میںتجھے سجدہ کرتا ہوں” اس نعرے کے اسی مفہوم کی وجہ سے تو مسلمانوں نے وندے ماترم پڑھنے سے انکار کیا کہ ان کے ہاں سجدہ تو صرف اور صرف خالق و مالک حقیقی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو جائز نہیں ۔لیکن بھارت میں رہنے کی وجہ سے ان کے گلے میں جو طوق غلامی پڑا ہے وہ نہ تو اتار سکتے ہیں اور نہ اس کے سامنے گردن جھکا سکتے ہیں۔
بھارتی مسلمان ایسے ہی حالات میں اپنی بقا کیلئے راستے بھی تلاش کرتے ہیں، مثلاً ان کے ایک بڑے مذہبی رہنما نے ”بھارت ماتا” کے نعرے کو ”ہندوستان زندہ باد” سے تشبیہ دے کر راہ نکالنے کی کوشش کی کہ اگر ہم ہندوستان زندہ باد کہتے ہیں تو ”بھارت ماتا کی جئے ‘ بھی کہہ لیں تو کوئی حرج نہیں لیکن بھارتی ہندو تو پھر بھی راضی نہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو 3اپریل کو علاقہ ریاست اترپردیش میں پیش آنے والا واقعہ ہی دیکھ لیجئے کہ وہاں بھارت کی پولیس ایجنسی ”نیشنل انوسٹی گیشن” کے ایک افسر کو صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ مسلمان تھا۔ تنزیل احمد اپنی اہلیہ کے ہمراہ نصف شب کو ایک رشتہ دار خاتون شادی کی تقریب سے واپس گھر لوٹ رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر موٹرسائیکل سوار ہندوئوں نے حملہ کر دیا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے انہیں ان کے بچوں کے سامنے ہی گاڑی میںڈھیر کر دیا۔ انہیں ایک دو نہیں 24 گولیاں ماری گئیں۔
تنزیل احمد بی ایس ایف کے اسسٹنٹ کمانڈنٹ تھے اور این آئی اے میں پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کے حوالے سے ڈیپوٹیشن پر تھے کہ ہندوئوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان دہشت گردوں نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر کے رکھ دیا تو ان کی اہلیہ بھی شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں اس طرح کا اسلحہ رکھنے پر پابندی ہے لیکن مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے آخر ان لوگوں کو اس طرح اسلحہ کہاں سے اور کیسے مل جاتا ہے، جواب تو سیدھا سادھا ہے لیکن ابھی تک بے شمار لوگوں کو معاملہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔
اسی ریاست یعنی اترپردیش کے ایٹہ شہرکے کوتوالی مین واقع جامعہ اشاعت العلوم میں 48 سالہ مفتی شہزادکو ہندو دہشت گردوں نے مدرسہ میں گھس کر فائرنگ کر کے شہید کر ڈالا اور پھر گرفتار کوئی کیا ہوتا ،الٹا اس قتل کا الزا م مسلمانوں پر ہی عائد کر دیا گیا۔سو اب جیسے پہلے کئی مسلم کش واقعات میں مسلمان ہی عرصہ دراز سے جیل کاٹ رہے ہیں یہاں بھی وہی ہو گا۔اسی روز خبر آئی کہ اسی اتر پردیش کے ضلع پیلی بھیت میں25سال پہلے جو 10سکھ قتل ہوئے تھے ان کے مقدمہ میں 47پولیس اہلکاروں کوعمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔بھارت میں یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اس کا حل کیسے نکلے گا مسلمانوں کو خود ہی اس کے بار ے سوچناہو گا کہ وقت تو ہاتھ سے نکلا ہی جا رہا ہے۔
تحریر : علی عمران شاہین
(برائے رابطہ:(0321-4646375