ملک پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اس لیے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اسلام ہمیں سیکھاتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں مگر یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ پاکستان میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا انہیں عزت اور قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور بہت سے لوگ تو ان کے پاس بیٹھنا تک پسند نہیں کرتے یہاں تک کے اس کے اپنے رشتے دار بھی اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور غریب بچارے کو دو وقت کے روٹی تلاش کر نے کے لیے در بدر کی ٹھوکر یں کھانی پڑتی ہیں اسے سارا دن کام کرنے کے بدلے جو دو چار سو روپے ملتے ہیں جس سے اس کے بچوں کی دو وقت کی روٹی سکول کے اخراجات اور پہنے کے لیے کپڑے نہیں آتے اور مہنگائی نے تو ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور بہت سے مزدور تو دن بھر اسی انتظار میں ہی رہتے ہیں کہ کوئی انہیں بھی کام کروانے کے لیے ساتھ لے جائے
مگر شام کو انہیں مایوس ہی لوٹنا پڑتا ہے بچے گھر میں بھوکے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شام کو ہمارے ابا جان ہمارے لیے کھانے کو لے کر آئیں گے اور جب وہ اپنے ابا جان کو خالی ہاتھ دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجانے ہیں توبچوں کوایسی حالت دیکھ کر باپ کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے ہر باپ کا خواب ہوتا ہے کہ اس کے بچے اچھے سکول میں تعلیم حاصل کریں اچھے سے اچھا کپڑا پہنے اور اچھے سے اچھے کھانے کھائیں اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر طرح کی محنت مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جب اسے جائز طریقہ سے روزی نہیں ملتی تو وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہر سال ہزاروں مزدور خود کشی کر چکے ہیں یا پھرنا جائز طریقہ سے روزی کمانے کے راستے تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں
دوسروں کی جان لینا انہیں کے نزدیک مشکل نہیں رہتا ناجائز طریقہ سے روزی کمانے پر ہمارے ملک کا قانون اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتا ہے چونکہ اس کے پاس ضمانت کروانے کے لیے کثیر رقم اور سفارش نہیں ہوتی اس لیے اسے کئی کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار نے پڑتے ہیں اور اس کے بچے باہر بھوک و پیاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر وہ بھی ناجائز طریقہ سے روزی کمانا شروع کر دیتے ہیں ،
جبکہ دوسری طرف ہمارے امیر لوگوں کے شاہی گھرانے جن کی دسترخوانوں پر اتنی قسم کے کھانے سجے ہوتے ہیں جن کو غریبوں کے بچوں نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا اور ان کے دسترخوانوں پر اتنا کھانا بچ جاتا ہے کہ جس سے کئی غریب گھروں کے بچوں کا پیٹ بھر سکتا ہے ان کے بچوں کے پاس اتنے کپڑے ہوتے ہیں کہ جو ایک دفعہ پہن لیا اسے دوبارا پہنانا گوارہ نہیں کرتے ان کے بچوں کے پاس اتنے کھلونے ہوتے ہیں جن سے انہوں نے کبھی کھیلا بھی نہیں ہو گا ان کے پاس اتنی گاڑیاں ہوتی ہیں جن میں وہ کبھی بیٹھے بھی نہیں ہو ں گے اور اگر کوئی غریب ان سے دو وقت کی روٹی مانگ لے تو ان کی طرف سے اسے انکار کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور ہمارے ملک کے حکمران جو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ووٹ مانگتے وقت ان غریبوں سے بڑے بڑے وعدے بھی کرتے ہیں
جب غریب کئی دنوں کے چکر کاٹنے کے بعد ان کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو وہ ان سے ملنا تک گو ارہ نہیں کرتے اور انہیں زبردستی گھر سے نکال دیا جاتا ہے کیا غریب انسان نہیں ہیں اس کودنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے اس کا قصور یہ ہی ہے کہ وہ غریب پیدا ہوا۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے (امین)