کولکتہ: پاکستان سے معاہدے پر ’میں نہ مانوں‘ کی بھارتی تکرار جاری ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بھارتی بورڈ کی جانب سے حکومتی اجازت نہ ملنے کے اصرار پر کہا تھا کہ اگر یہ مسئلہ تھا تواس کو باہمی معاہدے میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔
جب یہی بات بی سی سی آئی کے سیکریٹری امیتابھ چوہدری سے پوچھی گئی تو انھوں نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی قانونی دستاویز یا تفصیلی معاہدہ نہیں ہے، پی سی بی نے کیوں اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ ابتدائی ڈرافٹ کے بعد تفصیلی معاہدہ ہوگا۔ حکومتی اجازت کی شق تو تفصیلی معاہدے میں ڈالنی تھی جوکبھی وجود میں ہی نہیں آیا، 1952 سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر سیریز سے قبل ایک تفصیلی معاہدہ ہوتا آیا ہے۔
امیتابھ چوہدری نے کہا کہ ہم بھی پاکستان سے کھیلنا پسند کرتے ہیں مگر درمیان میں کچھ چیزیں حائل اور وہ ہمارے اختیار میں نہیں ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں، ہم نے حکومت کو تو ایشیا کپ کی میزبانی کے حوالے سے بھی لکھا اور بتایا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مقابلے کے بغیر یہ ایونٹ بے کار ہوگا۔ ہم نے حکومت کو یہ بھی لکھا کہ اگر بھارت میں میزبانی ممکن نہیں تو کسی دوسرے ملک میں ایونٹ منعقد کرلیتے ہیں جس پر حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے ایسا کرو۔
ایک سوال پر امیتابھ نے کہاکہ میں پہلے ہی پی سی بی کے آئی سی سی تنازعات کمیٹی میں جانے کی وجہ بتا چکا کہ ان پر اپنے ملک میں کافی دباؤ تھا اس میں ہماری کوئی سفارتی ناکامی نہیں ہے۔
دوسری جانب نجم سیٹھی نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک باضابطہ معاہدہ ہے، انھیں اس بات کا فیصلہ کرنے دیں یہ کنٹریکٹ ہے یا کوئی اور چیز ہے، ہم تو اس کی بنیاد پر چیلنج کرچکے ہیں، اس سوال کا فیصلہ اب آئی سی سی کی تنازعات حل کرنے والی کمیٹی کو کرنا ہے اور ہم اس مسئلے کے حل ہونے کا انتظار کریں گے۔