ممبئی حملوں کے بارے میں دیے گئے بیان نے نواز شریف کے چہرے پر پڑے محبّ وطن کا نقاب الٹ دیا ہے، اند ر سے مکروہ اور غدار چہرہ قوم کے سامنے آیا ہے۔ پوری پاکستانی قوم اس بیان سے شدید غصے اور اشتعال میں ہے۔ کیا نواز شریف کا انڈیا سے تعلق وزارت عظمیٰ سے نااہل ہونے کے بعد بنا ہے یا یہ تعلق پرانا ہے۔ آئندہ سطور میں اسی بات کا جائزہ لیں گے۔
سابقہ سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں بزرگ صحافی آغا مرتضیٰ پویا کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ (آغا مرتضی پویا، ایک انگلش اخبار کے مالک تھے۔) شریف خاندان کے انڈیا سے روابط بھٹو مخالف تحریک کے وقت سے ہیں جب نواز شریف اصغر خان کی تحریک استقلال کا حصہ تھے۔ پویا صاحب کے صحافی دوست بھٹو کو ان ثبوت کی فائل پیش کرنا چاہتے تھے لیکن بھٹو کے پاس ملاقات کا وقت ہی نہیں تھا۔
میجر عامر جو پاکستان کے مایہ نا ز سپوت ہیں۔ حامد میر کو دیے گئے انٹر ویو میں ایک واقعہ شئیر کرتے ہیں۔ 1991 میں جب ان کو ڈائریکٹر ایف آئی اے لگایا گیا، اخبار میں خبر چھپی تو ان کے دوست جو کسی یورپین ملک میں سفیر تھے، ان کی کال آئی کہ برادر میں آپ کے دفتر آنا چاہتا ہوں اور آپ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ آئے اور انہو ں نے کہا “بھائی وہاں دیکھو ، یہاں کچھ ہے”۔ میں نے کہا کیا مطلب، اس سفیر دوست نے بتایا کے رات کو کھانا تھا بنیر جی کے ہاں۔ (بینر جی اس وقت را کے انڈر کور چیف تھے اسلام آباد میں ) تو وہاں پر تمھارے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی کہ اسے کیوں لگایا گیا ہے۔ ان کے جانے کے بعد فرنٹیر پوسٹ کے صحافی طاہر مغل آفس میں آئے، طاہر مغل ویزہ کے حصول کےلیے انڈین ایمبیسی گئے تو کونسلر انہیں کرید کردید کر پوچھتا رہا کہ میجر عامر کو یہا ں کیوں لگا یا گیا ہے؟
میجر عامر کہتے ہیں کہ میں کچھ دنوں بعد اپنے پہلے دورے پر کراچی گیا تو پتا چلا کہ انڈین ٹرانزٹ مسافروں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ جب چاہیں بغیر ویزہ کراچی گھوم پھر سکتے ہیں۔ میجر عامر کہتے ہیں ہمارے پروفیشن میں سب سےمشکل کام ایجنٹ کا لانچ کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستا ن کی وزارت داخلہ نے انڈین مسافروں کو سہولت دی ہوئی تھی کہ وہ دہلی سے دبئی کا ٹکٹ خریدیں، پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھیں، ٹرانزٹ پر کراچی اتریں اور بغیر ویزہ کراچی گھس جائیں۔ میجر عامر نے اس پر فوری پابندی لگا دی جس پر “را” نے پاکستانی ایمبیسی دہلی کے باہر مظاہرہ بھی کروایا۔ یہ واقعہ ہے 1991 کا جس وقت نواز شریف کی حکومت تھی اور ان کی وزارت داخلہ نے بھارتیوں کو اجازت دی ہوئی تھی کہ ٹرانزٹ پر کراچی میں گھسیں اور جتنی مرضی آگ لگائیں۔
سینئر کالم نگار منیر احمد بلوچ 26 اگست 2017 کو دنیا اخبا ر میں شائع ہونے والے کالم “العزیزیہ سے احمد آباد‘‘ میں لکھتے ہیں ’’حسین نواز کی جدہ میں لگائی گئی عزیزیہ اسٹیل مل کی مکمل تنصیب کیلئے آر یو سیٹھی کی خدمات حاصل کی گئیں، سیٹھی صاحب کا تعلق بھارت کے صنعتی ٹائیکون سے ہے جس کا بھارت کے خفیہ اداروں سے رابطہ دنیا بھر کے سفارتی اور انٹیلیجنس حلقو ں کےلیے عجوبہ نہیں۔ العزیزیہ اسٹیل اور پھر ہل میٹل کی تنصیب کیلئے لاکھوں ڈالرز کی جو ادائیگیاں کی گئیں ان پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں، سب دستاویزات میرے سامنے پڑی ہیں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں ’’بھارت کی کاروباری برادری جانتی ہے کہ آر یوسیٹھی اور ہندوستان کی دو اہم ترین کمپنیوں کا تعلق بھارت کے دفاعی اداروں سے ہے۔‘‘
یہی وہ کمپنیاں ہیں جنہوں نے مشینری اور اسٹیل مل کےلیے درکار سازو سامان بھارت اور دوسرے ممالک سے منگوا کر دیا۔ عزیزیہ اسٹیل اور ہل مییٹل کےلیے ہندوستان کی متل اسٹیل کے منتخب ملازمین کو سعودیہ بھیجا گیا۔ یہ طویل کالم شریف خاندان کے بھارتی ایجنٹوں سے روابط اور لین دین کے بھاری ثبوت مہیا کرتا ہے۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ ان ملوں میں ایک پاکستانی ورکر بھی کام نہیں کرتا تھا، اس سے زیادہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ شریف خاندان کی پاکستان میں موجود ملوں میں بھارتی ٹیکنیشن (ایجنٹ) کام کرتے ہیں جن کے بارے میں ستمبر 2016 میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ناقابل تردید ثبوت مہیا کیے۔ انہوں نے بھارتیوں کے نام، پاسپورٹ نمبر اور کس تاریخ کو ویزہ پاکستانی ایمبیسی سے ایشو ہوا، سارے راف فاش کردیے۔ ان بھارتیوں کی تعداد 250 سے 300 تھی۔ ویزہ کے ساتھ ان بھارتیوں کو خصوصی رعایت، پولیس رپورٹ سے استسناء بھی بخشا گیا تھا، ان ٹیکنیشنز کو واہگہ بارڈر پر بذریعہ پولیس وصول کیا جاتا، سامان کی چیکنگ بھی نہیں کروائی جاتی تھی اور پولیس پروٹوکول کے ذریعے ملوں میں پہنچا دیا جاتا۔
یہ سب کچھ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک پریس کانفرنس اور روالپنڈی کے لیاقت باغ کے احتجاجی پروگرام میں بیان کیا، شریف خاندان کی طرف سے اس بارے میں ایک چھوٹی سی تردید بھی سامنے نہ آئی۔ مبینہ طور پر کلبھوشن یادیو کا بنیادی اشارہ انہی ملوں میں مقیم ایجنٹوں سے رابطے پر ملا۔
یہ تمام ثبوت ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستانی صحافیوں کو معلوم ہیں، اخبارات میں شائع ہوئے، تو کیا پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں کو معلوم نہیں تھے۔؟ یقیناً معلوم ہونگے، واجد ضیاء کی سربراہی میں بنی جے آئی ٹی کا والیم ٹین بھی اس طرز کے ثبوتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے وطن دشمن شریفوں کے اقتدار کی راہیں ہموار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں انڈین ایجنٹوں کو دی گئی ٹرانزٹ کی سہولت کے انعام کے طور پر 1997 کے انتخابات میں بھاری مینڈیٹ جھولی میں ڈال کر امیرالمومنین بننے کی راہ ہموار کی جاتی ہے، پھر وہی نواز شریف کارگل مشن پر پاکستان اور پاکستانی فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ اس وار کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتا ہے لیکن جب مشرف کو برطرف کیا جاتا ہے تو شریف براداران کو بھاری مینڈیٹ سمیت اٹک قلعہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے نام پر پی پی اور ن لیگ کی قیادت کی پچھلی کرپشن اور غداری معاف کر دی جاتی ہے او ر آئندہ دس سالوں میں باری باری اقتدار کی نوید دے دی جاتی ہے۔
اگست 2014 میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان اپنے کارکنوں کو لے کر دھرنا دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دھاندلی، کرپشن اور غداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ نواز شریف کو اقتدار میں لانے کےلیے انڈین سرمایہ کاری کے ثبوت مہیا کیے جاتے ہیں۔ پھر بھی دھاندلی سے وجود میں آئی جعلی حکومت کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی تحفط سے شہ پا کر ڈان لیکس بپا کیا جاتا ہے۔ ڈان لیکس کی خالق شہزادی کو معافی دے کر جعلی بکرو ں کی قربانی پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔
پاکستان کی ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر انڈین فوج کی گولہ باری سے پاکستانیوں کی شہادت، مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنوں سے حملے، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر مکمل خاموشی – ڈان لیکس 2 کی صورت میں ملک پاکستان کے بارے میں زبان درازی – آخر کب تک ان کے جرائم سے صرف نظر کیا جائے گا۔ قومی سلامتی کے ضامن اداروں کی خاموشی کا کیا مطلب؟ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرٹیکل 6 کےاطلاق میں کیا رکاوٹ ہے؟