تحریر: محمد شعیب تنولی
2015 میں ” برج آف سپائیز ” (جاسوسوں والا پل) نامی ہالی وڈ مووی ریلیز ہوئی جو 60 کے دہائی میں امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ کے واقعات پر تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ھے کہ کہ امریکی سی آئی اے نیویارک میں ایک نہایت پروفیشنل روسی جاسوس کو گرفتار کرتے ہیں جو یہ تو تسلیم کرتا ھے کہ وہ جاسوس ھے لیکن اس کے آگے کچھ بھی نہیں بتاتا۔ فلم کا مرکزی کردار ٹام ہینک نامی مشہور اداکار نے پلے کیا ھے جس میں وہ اس جاسوس کا وکیل بن کر پہلے اسے موت کی سزا سے بچاتا ھے اور پھر روس کے ساتھ ایک ڈیل کرکے ان کی قید میں ایک امریکی پائلٹ کی رہائی کے بدلے اس روسی جاسوس کو رہا کروا لاتا ہے۔ فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے پوری امریکی عوام اس روسی جاسوس کے خلاف ہوتی ہے اور مطالبہ کرتی ھے کہ اسے برقی کرسی پر بٹھا دیا جائے۔ ایک موقع پر آرگومنٹ کرتے ہوئے ٹام ہینکس امریکی حکام سے کہتا ھے کہ وہ روسی جاسوس ایک پروفیشنل شخص ھے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور یہ اسے عزت دینے کیلئے کافی ھے۔ اگر آپ کا کوئی جاسوس روس کے ہاتھ آجاتا ھے تو کیا آپ نہین چاہیں گے کہ اس کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جائے؟ یہ تو ایک سائیڈ واقعہ تھا۔ اب آجائیں اصل واقعے کی طرف جو حال میں پکڑا جانے والا بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ھے۔
کلبھوشن نے پاکستان میں اپنی باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز 2002 میں کیا۔ انڈین پارلیمنٹ پر ہوئے اٹیک کے بعد جب دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آچکی تھیں، ان دنوں کلبھوشن نے ایک چھوٹے مسلمان تاجر کے بھیس میں پاکستان میں قدم رکھا جس کے پاس ایران میں جاری کاروبار کی دستاویزات موجود تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا اور اس کی ساری توجہ افغان وار اور امریکی کوآرڈینشن پر لگی تھی۔ ان دنوں سینکڑوں بھارتی جاسوس پاکستان داخل ہوئے اور مختلف شہروں میں کاروائیوں میں لگ گئے۔ کلبھوشن کے پاس سب سے اہم ٹاسک تھا۔ بطور انڈین نیوی آفیسر، یہ بندرگاہوں کی دفاعی اور معاشی اہمیت سے واقف تھا، چنانچہ اسے گوادر، پسنی اور کراچی کی بندرگاہوں والے علاقوں کی کمان سونپی گئی۔ کلبھوشن جیمزبانڈ ٹائپ کے مار دھاڑ کرنے وال جاسوس نہیں تھا بلکہ یہ ایک سٹریٹیجسٹ اور منصوبہ ساز تھا۔ کلبھوشن نے بلوچستان کے ناراض عناصر سے رابطہ استوار کرنا شروع کیا اور انہیں مختلف زرائع سے مالی اور اسلحہ کی صورت میں امداد فراہم کرنا شروع کی۔ کلبھوشن ہردوسرے مہینے ایران جایا کرتا تھا جہاں وہ اپنے مشن کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا اور نئے احکامات وصول کرتا۔
2006 میں کلبھوشن ہماری ایجنسیوں کی نظر میں آچکا تھا۔ جب انہں اس کی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو فوری ردعمل کے طور پر تو متعلقہ حکام کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ پھر آہستہ آہستہ تفصیلات اکٹھی کرنا شروع کیں۔ ایک ایک کرکے کلبھوشن کے سہولت کاروں پر نظر رکھنا شروع کی۔ پھر آہستہ آہستہ ناراض بوچ طلبہ گروپس میں اپنے بندے شامل کرکے کلبھوشن کے رابطے میں لائے گئے۔ اس کام میں کم و بیش دو سال لگ گئے۔ 2008 تک کلبھوشن کافی حد تک مطمئن ہوچکا تھا اور اسے لگا کہ وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل کررہا ہے۔ کلبھوشن کی تفصیلات بارڈر سیکیورٹی فورسز کے پاس آچکی تھیں لیکن انہیں ہدایات تھیں کہ وہ اس کی آمدورفت میں کوئی تعطل نہ ڈالیں۔ 2010 تک کلبھوشن کے زیادہ تر کانٹیکٹ پرسنز ہماری ایجنسیوں کے خفیہ والے لوگ ہی تھے جو اسے غلط ملط معلومات فراہم کرکے اس کا اعتماد حاصل کرچکے تھے۔
پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ کلبھوشن کا اعتماد حاصل کرنے والے چند لوگوں کو انڈیا بھجوانے کا بندوبست کیا گیا تاکہ وہ براہ راست انڈین کمان میں آکر زیادہ مؤثر کاروائیاں کرسکیں۔ اس وقت کا ہماری ایجنسیوں کو کئی سالوں سے انتظار تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 80 کے قریب لوگوں کو مختلف اوقات میں دبئی اور ایران کے راستے انڈیا بھجوایا گیا جہاں ان کا استقبال بھارتی خفیہ ایجنسی کے اعلی حکام نے کیا اور ان کے ساتھ اپنے لانگ ٹرم پلان شئیر کئے۔ ناراض بلوچ تنظیموں کے بھیس میں چھپے ہماری ایجنسیوں کے یہ لوگ بھارتی حکام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس دوران کلبھوشن کو ہر طرح سے سہولیات فراہم کی گئیں۔ دس سالوں کے عرصے میں وہ بہت حد تک مطمئن ہوچکا تھا کہ اب اس کے پکڑے جانے کا امکان نہیں۔ لیکن اس دوران اس کی ہر ایک موو پر ہماری نظر تھی۔
پچھلے کچھ سالوں سے انڈین حکام کو کلبھوشن سے کچھ شکایات بھی آنا شروع ہوئیں۔ اس کی دی گئی انٹیلیجنس بالخصوص گوادر پورٹ کے حوالے سے دی گئی معلومات زیادہ تر غلط ثابت ہوئیں۔ اسی طرح وہ تمام “ناراض” بلوچ جو کئی بار انڈیا جاچکے تھے، اب ایک ایک کرکے وہ بھی منظر سے غائب ہوتے جارھے تھے۔ ان لوگوں نے 150 سے زائد لوگ ٹریننگ کیلئے انڈیا بھجوائے، جن کا کوئی ریکارڈ انڈین حکام کے پاس نہ تھا اور یہ بھی ایک بہت الارمنگ صورتحال بن چکی تھی۔
اب کلبھوشن پر دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔ پرویز کیانی کے آرمی چیف بننے کے بعد انڈین جاسوسوں کا پاکستان میں داخلہ تقریباً ناممکن سا ہوگیا تھا۔ راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد مجموعی طور پر فوج اور عوام کا مورال بہت بلند ہوگیا جو کہ انڈیا کیلئے قابل قبول نہ تھا۔
پھر یوں ہوا کہ پاکستان میں نوازشریف کی حکومت آگئی اور انڈیا میں مودی سرکار۔ مودی، جو ازل سے پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن تھا، اس نے اچانک نوازشریف سے پیاربھرے تعلقات بڑھانے شروع کردیئے۔ میاں صاحب ایک ازلی بیوقوف اور تاجر شخص مودی کی چال میں آگئے۔
پھر میاں صاحب کی فیملی کو انڈیا کی کاروباری شخصیات کے ساتھ رابطے میں لایا گیا۔ میاں برادران کے بیٹوں کو بھارتی صنعتکاروں نے ایسی کاروباری آفرز کیں کہ وہ اپنی ہوش کھو بیٹھے اور انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے میں لگ گئے۔ بارڈر پر کیسی بھی صورتحال کیوں نہ ہو، میاں صاحب کی فیملی کے مودی کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہی رھے۔ چند ماہ پہلے نوازشریف کی پوتی کی شادی پر مودی اور بھارتی کاروباری شخصیات کی آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پچھلے 2 سالوں میں شریف فیملی کی فیکٹریوں میں جدید ٹیکنالوجی کی تنصیبات کیلئے بھارتی ماہرین کی سروسز نہایت واجبی داموں فراہم کی گئیں۔ چنیوٹ میں واقع ایک فیکٹری کے ساتھ لگے پاورپلانٹ میں 37 بھارتی ماہرین کام کرتے رھے ہیں جن کو ویزا براہ راست وزیراعظم کے حکم سے جاری ہوتا تھا۔
2015 تک کلبھوشن پاکستان اور انڈین حکام کیلئے ایجسنیوں کی ٹرم میں تقریباً “ایکسپائرڈ” ہوچکا تھا اور اب ہمارے حکام اس سے جان چھڑانے کے چکر میں تھے۔ لیکن پھر پچھلے چند مہینوں میں بھارتی جاسوسوں کے ایک نئے نیٹ ورک کا پتہ چلا جو کہ “ٹیکنالوجی ایکسپرٹس” کے ویزوں پر پاکستان میں سرگرم تھا۔پھ ہماری ایجنسیوں نے کلبھوشن کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ اب صورتحال یہ ھے کہ ان تمام جاسوسوں کو ایک ایک کرکے پکڑا گیا ھے اور بتایا یہی گیا ھے کہ ان کی نشاندہی کلبھوشن نے کی تھی۔ حالانکہ کلبھوشن کے فرشتوں کو بھی ان بھارتی جاسوسوں کی خبر نہیں تھی۔
ہمیں ان کا کیسے پتہ چلا؟ یہ جاننے کیلئے آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں۔ اوپر پوسٹ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ 150 کے قریب “ناراض بلوچ” انڈیا میں آپریٹ کررہے ہیں جو اب انڈین حکام کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا چکے ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہو، ایک بات کی خوشی ھے کہ ہماری ایجنسیوں نے ” برج آف سپائز” میں بتائی گئی روایت کے مطابق کلبھوشن کو ایک جاسوس کا پروٹوکول ہی دیا ھے اور اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک اختیار کررہے ہیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ نہ تو مشرف غدار تھا اور نہ ہی نوازشریف۔ یہ دونوں پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ کبھی نہیں ملیں گے لیکن مشرف کو اس کی سیاسی اور نوازشریف کو اس کی کاروباری مجبوریاں لے بیٹھیں۔ مشرف دور میں بھارتی جاسوسوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت شروع ہوئی اور میاں صاحب نے اپنے کاروبار کی لالچ میں ان جاسوسوں کو ملک میں داخل ہونے دیا۔ وہ تو بھلا ہو کہ ہماری ایجنسیاں چوکنی رہیں اور ہم کسی بڑے نقصان سے بچ گئے۔ اب آپ کو یہ بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ پچھلے ہفتے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر کلبھوشن کی خبریں کیوں شایع کی گئیں؟ اب انڈیا کے ساتھ ساتھ ایران کے بھی پیچ کسنے کا وقت آگیا ھے اور ایران کسی خوش فہمی میں نہ رھے، پاکستان کوئی خلیجی ریاست نہیں جسے وہ اپنے گھر کی بھیڑ سمجھ لے۔ ہم وقت پڑنے پر شیر اور عقاب سے زیادہ سرعت اور طاقت کے ساتھ شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں!!!!
تحریر: محمد شعیب تنولی