تحریر : وقارانساء
اسلام دین فطرت ہے جس میں حقوق وفرائض کا حسین امتزاج ہے جن کی ہی وجہ سے ايک نظام کی تشکیل ہوتی ہے جہاں بسنے والوں کو ان کا جائز مقام حاصل ہوتا ہے اسلام کی اسی اساس کو پیارے رسول کے بعد خلفائے راشدین نے اپنے ادوار میں محور و مرکز رکھا اور اسلام کا وہ تاثر دیا کہ لوگ راہ حق اختیار کرتے گئے ہر دور میں حق وباطل کے درمیان ہونے والے معرکوں میں ھمیشہ حق سر بلند رہا اور باطل جھک گیا ان معرکوں میں امام عالی مقام کی صبر ورضا ھمت و دلیری اور استقلال کا واقعہ کربلا ھمیشہ کے لئے اسلام کو جہاں سر بلند کرگیا وہاں باطل کو ھمیشہ کے لئے جھکا دیا۔
حضرت امام حسین کا علم حق بلند کرنے کا مقصد ايسے نظام کو ختم کرنا تھا جو باطل پر مبنی تھا بنو امیہ کی کوشش تھی آپۖ کی سنت کو ہٹا کر زمانہ جاہلیت کے نظام کورائج کیا جائے-امام عالی مقام نے اس کے خلاف احتجاج کیا آپ نے جان کا نذرانہ دے دیا اپنا سر تو تن سے جدا کروا دیا لیکن باطل کے سامنے نہ جھکے اور یزید کے ھاتھ پر بیعت سے انکار کر دیا آپ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ اچھی باتوں پر عمل نہیں کیا جا رہا اور برائیوں سے روکا نہیں جا رہا- اسی کو روکنے کے لئے آپ اٹھ کھڑے ہوئے۔
آپ نے فرمایا کہ لوگ دنیا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تو دیندار کم نکلتے ہیں- حقیقی مسلمان وہ ہے جو آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہے آج مسلمان یہ واقعات صرف سنتا ہے پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے لیکن اس کی روح کو نہیں سمجھتا –اور نہ ہی ان برائیوں کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے جو معاشرے کے لئے ناسور بن رہی ہیں امام عالی مقام کی ھمت صبر اور استقامت نے نہ صرف مسلمانوں کو حوصلے کے ساتھ حق پر ڈٹ جانے کا درس دیا وہاں غير مسلم مورخین نے بھی اسے اپنی اصلاح اور رہنمائی کے لئے مشعل راہ بنایا
انسان کو بیدار تو ہو یينے دو
ہر قوم پکارے گی ھمارے ہیں حسین
آج ھمیں دیکھنا ہے کہ ھم کہاں کھڑے ہیں- آج یزیدی فکر پروان چڑھ رہی ہے اور حسینیت کا تقاضا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے ہر مسلمان اپنا کردار ادا کرے ایسے دنوں کے ہر سال آتے ہی لفظی اور زبانی طور پر عزم کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن اس عزم کو استقلال کا جامہ نہیں پہنایا جاتا اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک میں حالات و واقعات ديکھیں تو لگتا ہے یزیدیت پھر سر اٹھا رہی ہے-مظلوم پس رہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں عورتوں کی عصمت وآبرو کو پامال کرنے والے یزید کے ہی تو پیروکار ہیں۔
اتنا وقت گزر جانے کے بعد اور زمانے کی ترقی کے باوجود خواتین کے اعضاء کاٹنے والے انہیں فروخت کرنے اور قبیح کاروبار کرنے والے لوگ کون ہیں اس وقت کے حاکموں اور سرکردہ لوگوں کو کیوں اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں؟ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سبق جو پیارے حضور صلعم دیا کیا وہ ھمیں یاد ہے؟ کیا مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے ؟ وہی یزیدیت شکلیں بدل کر ہر موڑ ہر مقام پر کھڑی ہے –لیکن حسینیت کا علم کون بلند کرے گا۔
کون کرے گا یہاں یزید وقت کا سامنا
کہ ھمارے درمیان حسین سا کوئی نہیں
تحریر : وقارانساء