ممبئی (ویب ڈیسک)انڈیا میں آج بھی اکثر خاندان بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں لیکن جب حنا پیدا ہوئی تو اس کے والدین نے خوشیاں منائیں افسوسناک بات یہ ہے کہ اس خوشی کی وجہ بیٹی کی پیدائش سے زیادہ جسم فروشی کی وہ صدیوں پرانی روایت ہے جس کے لیے حنا کو استعمال کیا جانا تھا۔حنا کا تعلق انڈین ریاست مدھیہ پردیش کے دور دراز علاقے میں رہنے والی بچھارا برادری سے ہے۔یہاں صدیوں سے خاندان کی سب سے بڑی بیٹی کو 10 سے 12 سال کی عمر کے درمیان جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔جب وہ بڑی ہو جاتی ہے تو اس کی چھوٹی بہن اس کی جگہ لے لیتی ہے۔یہ روایت نسل در نسل چلتی آ رہی ہے اور اس برادری کے مرد زیادہ تر ان لڑکیوں کی کمائی پر ہی پلتے ہیں۔کبھی کبھی تو ان لڑکیوں کے والد یا بھائی ان کی دلالی بھی کرتا ہے۔حتیٰ کہ یہاں پر شادیاں بھی مختلف انداز سے کی جاتی ہیں۔ دلہن کا خاندان اپنی بیٹی کی قیمت لگاتا ہے جو لڑکے کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اسے جہیز کا الٹ سمجھا جاتا ہے۔حینا نے اپنی برادری میں بڑی عمر کی لڑکیوں کو بھی یہی کرتے ہوئے دیکھاحنا کو پیدائش سے ایسی زندگی کے لیے تیار کیا گیا اور بچپن میں ہی کام پر لگا دیا گیا۔بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا ’میں صرف 15 سال کی تھی جب مجھ سے زبردستی یہ شروع کروایا گیا۔ مجھے اپنی پڑھائی چھوڑ کر اپنی ماں اور نانی کے نقشِ قدم میں چلنا پڑا۔‘ہر روز اس نے متعدد گاہکوں کے لیے کام کیا، جس میں امیر دیہاتیوں سے لے کر ٹرک ڈرائیور تک شامل تھے۔18سال کی عمر تک مجھے احساس ہونا شروع ہوا کہ یہ سب کتنا غلط ہے اور مجھے غصہ آنے لگا۔ لیکن میرے پاس اور کیا چارہ تھا؟ میرا خاندان گزارہ کیسے کرتا اگر میں پیسے نہ کماتی۔ ‘بچھارے اکثر کافی غریب ہوتے ہیں اور اپنے مالی حالات بہتر کرنے کے لیے عام طور پر گھر کی خواتین پر انحصار کرتے ہیں۔آکاش چوہان ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کے منتظم ہیں۔ ان کہ مطابق ’اس پیشے میں دھکیلی جانے والی ہر تین میں سے ایک لڑکی نابالغ ہوتی ہے۔‘ایک رپورٹ کے مطابق اس پیشے میں تین میں سے ایک لڑکی کم عمر ہے بچھارے جو کہ پہلے ایک خانہ بدوش قبیلہ تھے آج مدھیہ پردیش کے تین اضلاع میں رہتے ہیں۔ان کا بسیرا زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں سڑک کنارے ہوتا ہے جہاں ٹرک ڈرائیور رکتے ہیں۔ان کمسن لڑکیوں کو ’کھلواڑی‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کھیلنے والی۔ یہ کسی گروہ میں یا اکیلے چارپائیوں پر بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کرتی ہیں۔اس کے ساتھ جڑے چھوٹے سے کمروں میں ان کے پیوپاری بیٹھے ہوتے ہیں جو کہ عموماً ان کے خاندان کا کوئی فرد ہوتا ہے۔وہ ڈرائیوروں کے ساتھ سودا طے کرتے ہیں جو کہ فی گاہک تقریباً 100 سے 200 انڈین روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کی کنواری لڑکی کی سب سے زیادہ قیمت لگتی ہے جو 5،000 روپے تک ہو سکتی ہے۔حنا اپنا وقت یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’ہر روز تقریباً چار سے پانچ آدمی دن کے وقت آتے تھے۔ رات کو ہم کسی ہوٹل یا کوئی اور قریبی جگہ جاتے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’بیماری لگنے کا ہمیشہ خطرہ ہوتا تھا۔‘ اس معاملے پر انڈین اخبار دی ہندو نے سنہ 2000 میں ایک رپورٹ کی تھی جس کے مطابق اس برادری کے ساڑھے پانچ ہزار افراد کے خون کے نمونوں میں سے 15 فیصد ایچ آئی وی پوزیٹو نکلے۔ان کمسن لڑکیوں کو ‘کھلواڑی’ کہتے ہیں اور یہ چارپائیوں پر بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کرتی ہیںان ’کھلواڑیوں‘ میں سے اکثر حاملہ ہو کر بچوں کو جنم بھی دیتی ہیں۔خود حنا کے ہاں اس پیشے میں داخل ہونے کے بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی۔وہ کہتی ہیں ’بہت لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں تاہم ان کو کام جاری رکھنا پڑتا ہے۔ ان کو بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے زیادہ پیسے کمانے پڑتے ہیں۔‘جسم فروش ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ لڑکیاں اس برادری میں کسی آدمی سے شادی نہیں کر سکتیں۔حنا نے بالآخر ایک مقامی غیر سرکاری ادارے کی مدد سے نجات پائی۔ ان کے مطابق ’صرف وہ لڑکی اس مشکل کو سمجھ سکتی ہے جو اس گھناؤنے عمل سے گزری ہو۔ مجھے پتا ہے یہ کیسا محسوس ہوتا ہے اور میں اس کے خاتمے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔‘بچھاروں کی اس سماجی روایت کی ابتدا سے متعلق کئی کہانیاں ہیں۔ ایک کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ ہر جگہ اجنبی ہونے کی وہہ سے اس خانہ بدوش قبیلے کو پیسے کمانے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے اپنی غربت سے نجات کے لیے یہ طریقہ اپنایا۔’ہر روز تقریباً چار سے پانچ آدمی دن کے وقت آتے تھے۔ رات کو ہم کسی ہوٹل یا کوئی اور قریبی جگہ جاتے تھے۔’انڈیا میں بیٹوں کو ترجیح دینے سے صنفی شرح کا توازن خراب ہو گیا ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔آکاش چوہان کا کہنا ہے کہ ’اس برادری میں تقریباً 3300 لوگ ہیں جن میں سے کم از کم 65 فیصد خواتین ہیں۔‘خواتین کی اتنی تعداد ہونے کی ایک وجہ ان علاقوں میں کمسن لڑکیوں کی سمگلنگ بھی ہے۔ پولیس سپرٹینڈنٹ منوج کمار سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے پچھلے چند مہینوں میں ان علاقوں سے تقریباً 50 لڑکیوں کو بچایا ہے۔ ہمیں دو سال کی ایک بچی بھی ملی جسے اب پناہ گاہ بھیج دیا گیا ہے۔‘منوج کہتے ہیں وہ اکثر ایسے چھاپے مارتے رہتے ہیں لیکن یہ پرانی روایت صرف سماجی آگاہی سے بدل سکتی ہے۔مدھیہ پردیش حکومت نے حال میں ایک قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت 12 سال سے کم عمر بچی کا ریپ کرنے پر سزائے موت دی جا سکے گی۔اس میں ایسے بالغوں کے لیے قید کی سزا بھی بڑھا دی گئی ہے جو کسی 18 سال سے کم عمر نابالغ کے ساتھ جنسی تعلقات رکھیں۔1993 میں بچھاروں میں جسم فروشی کے عمل کے اختتام کے لیے ایک سکیم بنائی گئی لیکن اس کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔رجیندر مہاجن وومن اینڈ چائلڈ ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے اہلکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’ہر سال ہم نجی اداروں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اس سکیم میں ہماری مدد کر سکیں لیکن کوئی ہماری ضروریات پر پورا ہی نہیں اترتا۔‘اس برادری کے چند جوان روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں اور تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔ انھیں کچھ مقامی تنظیموں کی طرف سے امداد بھی مل رہی ہے۔حنا بھی اب ایسی ایک تنظیم کا حصہ ہیں، وہی تنظیم جس نے 2016 میں ان کی مدد کی تھی۔وہ کہتی ہیں ’میں دیگر لڑکیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ وہ سہارا ڈھونڈ کر اس پیشے سے نکل سکتی ہیں۔ میں جو بھی کر سکتی ہوں وہ کروں گی۔‘حنا کا کہنا ہے ’یہ لڑکیاں اس پیشے میں رہنے پر مجبور ہوتی ہیں کیوںکہ ان کے پاس ملازمت کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہوتا۔ صرف تعلیم سے ہی ان کی نجات ہو سکتی ہے۔‘