بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے ایجنٹ اور نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016ء میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تو پورے ملک میں شور مَچ گیا اور اُس کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ اُسے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو فنڈنگ بھی کرتا تھا۔
2001 ء میں جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو کلبھوشن یادیو کو خفیہ معلومات باہم پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اُس کی کارکردگی کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ”را” نے اُسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں یادیو کو ایران میں کاروباری شخصیت کے روپ میں بھیجا گیا ۔ پھر وہ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر کراچی آیا اور ”را” کو یہ معلومات فراہم کرنا شروع کر دیں کہ ِکِس طریقے اور کِن لوگوں کو ساتھ ملا کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جا سکتی ہیں ۔ وہ مسلمان بن کر پورے ملک میں سفر کرتا رہا لیکن اُس کا ٹارگِٹ بی ایل اے کو فنڈنگ کرنا اور گوادر پورٹ اور اُس کے اِرد گرددہشت گردی کی وارداتیں کروانا تھا گویا بھارت کا ٹارگٹ کافی عرصے سے گوادر کی بندرگاہ تھی ۔ آج وہی گوادر اور سی پیک بھارت کے سینے پر سانپ بَن کر لوٹ رہے ہیں۔ مارچ 2016ء میں وہ ایرانی سرحد پر جعلی پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش میں پکڑا گیا ۔ یہ سب کچھ کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں کہا لیکن بھارت نے کلبھوشن کی اِس اعترافی ویڈیو کو نہ صرف جھوٹ کا پلندہ قرار دیا بلکہ اُس سے لاتعلقی کا اعلان بھی کر دیا ۔ ایک سال کی انکوائری اور اعترافی بیان کے بعد کلبھوشن یادیو کا کورٹ مارشل ہوا اور اُسے 10 اپریل 2017ء کو سزائے موت سنا دی گئی جِس کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توثیق بھی کر دی۔
وہی کلبھوشن یادیو جِس سے بھارت اعلانِ لاتعلقی کر چکا ہے ، اُسی کو سزائے موت سنائے جانے پر بھارتی تِلملاہٹ دیدنی ہے ۔ بی جے پی کے وزیر سبرا منیم سوامی نے کہا کہ یادیو کو سزا دینے پر بھارت کو پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی تیاری کرنی چاہیے ۔ اُس نے پاکستان کو یہ دھمکی بھی دی کہ اِِس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔ مودی سرکار نے کہا کہ بھارتی شہری کی سزا پر عمل درآمد ہوا تو اُسے سوچا سمجھا قدم قرار دیا جائے گا ۔ اِس معاملے پر جب پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط کو دفترِ خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا تو اُنہوں نے اِس بھارتی احتجاج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دبنگ لہجے میں کہا ” ایک تو دہشت گردی کرتے ہو اور پھر اُلٹابلا کر احتجاج بھی کرتے ہو۔ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ دہشت گرد کو سزا دے کر کوئی غلط کام نہیں کیا ۔ ہم پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ہی دَم لیں گے ۔ ہمیں ملکی سلامتی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ”۔ اب بھی بھارت میں ہر سطح پر گیدڑ بھبکیوں کا طوفان آیا ہوا ہے۔
کلبھوشن یادیو پاکستان میں پکڑا گیا پہلا بھارتی جاسوس نہیں ۔ اِس سے پہلے بھی کئی جاسوس پکڑے جا چکے ہیں اور پاکستان اقوامِ عالم کو بھارتی تخریب کاری کے ڈوزیئر بھی دے چکا ہے لیکن اقوامِ عالم کی طرف سے مجرمانہ خاموشی ہی رہی ۔ بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ 1981ء میں پکڑا گیا ، کشمیر سنگھ نے پاکستان میں 35 برس سزا کاٹی ، بھارتی جاسوس رووندرا کوشک نے تو کراچی سے بی اے کیا اور پاک فوج میں شامل بھی ہوا لیکن 1983ء میں پکڑا گیا اور 16 سال جیل کاٹی ۔ پاکستان دشمن ایم کیو ایم (لندن) کے الطاف حسین کو لندن میں بھارت فنڈنگ کرتا رہا اور اُس کے کارکن بھارت میں جا کر ”را” سے ٹریننگ بھی لیتے رہے لیکن عجیب بات ہے کہ برطانوی حکومت نے پتہ نہیں کِس مصلحت کے تحت اُس پر لگے ہوئے تمام الزامات دھو ڈالے۔
بھارت نے تو پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی تخریب کاری کا سلسلہ شروع کر دیا تھاجو تا حال جاری ہے اور پاکستان کے خلاف اُس کی سازشیں اظہر مِن الشمس ہیں ۔ یہ الگ بات کہ پتہ نہیں کِس مصلحت کے تحت پاکستان عرصۂ دراز تک بھارت کو موردِ الزام ٹھہرانے سے گریز اں ہی رہاجبکہ دوسری طرف بھارتیوں نے اپنے ملک میں ہونے والی ہر تخریب کاری کا الزام پاکستان پر ہی دھرا ۔ اب جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آ گیا ہے تو مودی حکومت کہتی ہے کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تو اِسے سوچا سمجھا قتل قرار دیا جائے گا۔ گویا بھارت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری بھی کرے اور آنکھیں بھی دکھائے۔اُس کا مطالبہ یہ ہے کہ اُس کے تخریب کاروں کو کچھ کہا بھی نہ جائے لیکن کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے اعلان کے ساتھ بھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان میں دَرگزر کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
مودی حکومت کہتی ہے کہ نہ تو اُسے کلبھوشن کے ٹرائل سے آگاہ کیا گیا اور نہ ہی کونصلر تک رسائی دی گئی ۔ پہلی بات تو یہ کہ بھارت نے کبھی بھی تخریب کاری کے الزام میں پکڑے گئے کسی بھی پاکستانی تک پاکستانی کونصلر کو رسائی نہیں دی اور یہی نہیں بلکہ ثبوت مہیا کرنے سے بھی ہمیشہ گریز ہی کیا ۔ دوسری بات یہ کہ بھارت نے کسی بھی سطح پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ کلبھوشن یادیواُس کی نیوی کا حاضر سروس آفیسر ہے ۔ جب کلبھوشن یادیو نے یہ اقرار کیا کہ وہ ”را” کا ایجنٹ اور نیوی کا حاضر سروس آفیسر ہے تو بھارت نے فوری طور پر اُس سے اظہارِ لاتعلقی کر دیا ، پھر یہ تِلملاہٹ کیسی؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے حاضر سروس جاسوس کے پکڑے جانے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کے بے نقاب ہونے پر بین الاقوامی سطح پر بھارت کا جو مکروہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے ، اُسے یہ بدنامی کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ اِسی لیے وہ بوکھلاہٹ میں اِس قسم کے بیانات داغ رہا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ، پاکستان میں تخریب کاری کے اِس عمل پر شرمندہ ہونے کی بجائے جارحیت اختیار کرکے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے تاکہ اُسے عالمی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کا اعلان سنتے ہی اُن 12 بے گناہ پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے جنہیں 12 اپریل کو رہا کیا جانا تھا ۔ اِس کے علاوہ ایسے اشارے بھی مِل رہے ہیں کہ پاکستان کے ریٹائرڈ عالمی کرنل حبیب کو بھی نیپال کی سرحد سے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” ہی اغوا کرکے بھارت لے گئی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ خفیہ طور پر کلبھوشن یادیوکی رہائی کے بدلے کرنل حبیب کی رہائی کا سودا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کرنل صاحب کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت کو حکومتی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا لیکن بھارتی جاسوس کے عوض ہرگز نہیں ۔ اُسے اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہی چاہیے کہ یہی غیرت و حمیت کا تقاضہ ہے۔