لاہور: (ویب ڈیسک) بھارت نے اپنے زیرِ انتظام متنازع ریاست جموں وکشمیر میں رمضان المبارک کے دوران میں 18 سال کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے فوجی مزاحمت کاروں کے خلاف کوئی کارروائیاں نہیں کریں گے ۔
یاد رہے کہ بھارت نے اس سے پہلے سنہ 2000ء میں رمضان المبارک کے دوران مقبوضہ جموں وکشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے اعلان کیا تھا ۔اس سے تین سال کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان 2003ء میں جنگ بندی کا ایک سمجھوتا طے پایا تھا لیکن بھارت نے مقبوضہ ریاست میں کشمیری حریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی تھیں ۔
بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ٹویٹ کی ایک سیریز میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ مسلمان مقدس مہینے کو پرامن ماحول میں منا سکیں۔ ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجی’حملے کی صورت میں یا معصوم عوام کی جانوں کے تحفظ کی ضرورت پڑی تو جوابی کارروائی کا حق رکھتے ہیں’۔
اس فیصلے کے حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ‘مرکز نے سیکیورٹی فورسز جموں و کشمیر میں مقدس مہینے رمضان میں کارروائیاں شروع نہ کرنے کا کہا گیا ہے’۔ مزید کہا گیا ہے کہ ‘یہ فیصلہ امن پسند مسلمانوں کو پرامن ماحول میں رمضان منانے میں مدد کے لیے لیا گیا ہے اور وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ نے جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کو مرکز کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے’۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی فورسز کی کارروائیوں کے دوران حالیہ ہفتوں میں تیزی آئی ہے جہاں کئی نوجوان جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ رواں ماہ 6 مئی کو کشمیر کے ضلع شوپیاں میں بھارتی فورسز کی ریاستی دہشت گردی میں 6 نوجوان جاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد 24 گھنٹوں کے دوران جاں بحق کشمیریوں کی تعداد 10 ہوگئی تھی۔ خیال رہے کہ گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جہاں بھارتی فورسز کی جانب سے مختلف کارروائیوں میں سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال اب تک ہونے والی کارروائیوں میں 110 افراد ہلاک ہوئے جن میں 20 عام شہریوں کے ساتھ ساتھ 28 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے شہریوں نے بھارت کی جانب سے جنگ بندی کے اس اعلان پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو مزاحمتی لیڈروں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے تنازع کشمیر کے حتمی حل کے لیے مذاکرات کرنے چاہییں۔ ایک اسکول استاد سجاد احمد کا کہنا ہے کہ اگر باغی اس کا جواب نہیں دیتے اور جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتے تو پھر اس پر خوش ہونے والی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ہم ماضی کے تجربے کی بنا پر اپنے شک کا اظہار کررہے ہیں ۔ہم ماضی میں بھی اس طرح کے بہت سے اعلانات سن چکے ہیں لیکن ان کا نتیجہ مزید بد امنی اور ابتری کی صورت ہی میں نکلا تھا