تحریر: ریاض جاذب
زمانہ جہالت میں معذور واجب القتل سمجھے جاتے تھے،اور انہیں غلام تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام کا نور نمودار ہوا۔ تب نبی کریمۖ رحمت ا للعالمینۖ ذہنی و جسمانی طور پر معذور مرد و زن کے لیے اْمید و خوشی کا پیام لیے دنیا میں تشریف لائے۔ آپۖ نے بہ حکمِ خداوندی معذوروں کے حقوق کی داغ بیل ڈالی اور انھیں معاشرے میں ایک منفرد مقام عطا فرمایا۔معذوروں کے ساتھ رسول اللہۖ کا حسن سلوک تمام مسلمانوں کے سامنے چراغ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریمۖ کو احساس تھا کہ ذہنی و جسمانی لحاظ سے معذور مرد و زن عام انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ مگر آپۖ سمجھتے تھے کہ معمول کی زندگی گزارنے میں معذوری حائل نہیں ہوتی۔ بلکہ آپۖ معذوروں پر خاص مہربانی فرماتے تاکہ ان کے اندرکی خوبصورتی اور خوبیاں عیاں ہو سکیں۔
لہٰذا ہمیں بھی یہ سمجھنا اور سوچناچاہیے کہ خود معذوری کوئی مجبوری یا رکاوٹ نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ذہنی و جسمانی معذوری انسان کی زندگی کوکٹھن بنا ڈالتی ہے۔ ان حالات میں مگر کسی معذور کی ہمت اور حوصلے کو بڑھانے کے لیے معاشرہ اس کا ساتھ دے تو اس کے لیے یہ کٹھن مراحل آسان ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیتاایک کامیاب انسان کی طرح معاشرے کا حصہ بنتے ہوئے باوقار طریقے سے زندگی گزارتا ہے۔ مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشرہ اور حکومت اپنے فرائض کو پورا نہ کرے۔ کہ وہ معذوروں کی فلاح و بہبود تعلیم و تربیت ان کی ذہینی اور جسمانی نشونما شخصی آزادی اور کھیل وتفریع سمیت ان کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔
پاکستان میں معذور افراد خاص طور پر بچوں کو زندگی کے ہر شعبے میں رکاوٹوں اور امتیازی سلوک کا سامناہے۔ ایک تو ہمارا معاشرہ قدامت پرست ہے دوسرا ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے ، ایسے لوگوں(معذور) کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ چنانچہ افراد باہم معذوری کے لئے نہ تو کوئی خاص قوانین بنائے جاسکے اور نہ ہی پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد ہوا۔اس بارے میں پاکستانی معاشرے میںعوامی شعورکم پایاجاتا ہے ۔ معذور افراد کی بحالی اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے تاحال ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکی۔
پاکستان میں معذور افراد کی حیثیت پر اگر لکھاجائے تو ایک تحریر میں اس موضوع مکمل نہیں کیا جاسکتا۔آج راقم اس سلسلے میں پہلی کاوش کے طور پر معذور بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے لیے صحت مند سرگرمیوں تفریع کے محدود مواقع کو موضوع بنا کر کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھا رہا ہے۔ او رپہلی قسط کے طور پر جنوبی پنجاب کو فوکس کیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ ہر کسی کو اپنے وسیب سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ راقم سرائیکی دھرتی ماں کا بیٹا ہونے کے ناطے اپنا فرض سمجھتا ہے کہ اپنے وسیب کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے پائیدار حل کی کوشش بھی کرے۔
معذورافراد میں شامل خصوصی بچوں کی اگر بات کریں تو انہیںسب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ ڈیرہ غازیخان ڈویثزن میں 2500 میں زائد خصوصی نابینااور سماعت سے محروم اور جسمانی وذہنی معذوری کے حامل بچوں کی رجسٹریشن سرکاری سطح پرموجود ہے ۔ جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ خصوصی بچوں کی تعلیم وتربیت کے ڈویثزن میں اسوقت 21 ادارے قائم ہیں۔ا سٹوڈنٹس کی تعداد 2000 کے قریب ہے۔ غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈویثزن میں 4000 خصوصی بچے اس کے علاوہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔معتبر ذرائع کے مطابق ڈویثزن ڈیرہ غازیخان کے چاروں اضلاع میں قائم سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں کو فنڈز اور سٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ سکول مسائل کا شکارہیں۔ جس سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں میں پڑھنے والے سپیشل بچے اپنے گھروں میں نہ بیٹھ جائیں ۔معذوری کوتعلیم وتربیت سے شکست دینے کا عزم رکھنے والے بہادر بچوں کے حوصلے جواب نہ دے جائیں اور وہ سڑکوں ،گلیوںچوکوں پر بے کار نہ پڑے ہوں۔
اگر ایسا ہونے سے روکنا ہے تو پھر فوری طور پر کچھ کرنا ہوگا ۔ دوسری طرف بدقسمتی کے ساتھ ان بچوں کیلئے ڈیرہ غازیخان سمیت چاروں اضلاع میں سیروتفریح کی بھی کوئی سہولت میسرنہیں چنانچہ ان کے پاس گھر بیٹھنے کے علاوہ کوئی مصروفیت نہیں ہوتیں۔ ڈیرہ غازیخان سمیت ڈویثزن کے چاروں اضلاع میں خصوصی بچوں کے لیے کوئی سپیشل پارک نہیں ہے جہاں وہ اپنی فیملی کے کسی فرد کے ہمراہ آ کر لطف اندوز ہو سکیں گے۔ ایسے خصوصی پارکس کراچی، لاہور اور دیگر کچھ شہروں میں ہیں جہاں خصوصی افراد بشمول خصوصی بچے اپنی فیملی کے ایک فرد کے ساتھ پارک میں آتے ہیں اور پارک میں لگے خصوصی جھولے اور دیگر گیمز سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ یہاں ایسے انتظامات ہیں کہ خصوصی افراد خاص طور پر بچے اپنی ویل چیئر سمیت جھولے پر جا کر لطف اندوز ہوں۔ خصوصی بچوں کیلئے تعلیمی ادارے توں کافی عرصہ سے موجود ہیں (اگرچہ مسائل کا شکار ہیں) لیکن ان بچوں کیلئے تفریح کی سہولیات میسر نہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ہر ضلع میں ایک خصوصی پارک بنائے تاکہ خصوصی بچوں کو تفریح کیلئے دوسرے ضلعوں میں نہ جانا پڑے۔خصوصی بچوں کو خصوصی ادارں میں تعلیم تو دی جا سکتی ہے لیکن انہیں سکول سے واپس اسی معاشرے اور حالات میں جانا ہوتا ہے جہاں وہ اکیلے پن کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے لیے بھی خصوصی پارک ہوں تو انہیں آپسی میل جول کا موقع ملے گا اور حوصلہ شکن ماحول سے انہیں کافی حد تک چھٹکارہ نصیب ہو گا۔کیونکہ عام پارکس میں جاتے ہوئے وہ ڈرتے ہیں اس لیے وہ کبھی وہ عام پارک نہیں جاتے۔ خصوصی پارک بننے سے ان کے یہ مسائل کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔ وہاں سب بچے ایک جیسے ہی ہوں گے اور انہیں آپس میں گھلنے ملنے اور سیکھنے کا موقع ملے گا جس سے ان کے اندر بھی اعتماد پیدا ہوگا۔
یہ امر باعث اطمنان ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے موجودہ کمشنرثاقب عزیز نے کئی انیشیٹو ایسے لیے جوکہ واقعی پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ خانہ بدوشوں کی بستی میں سکول کا قیام ہے۔جس کا ذکر ہم پہلے ایک ایک کالم میں کرچکے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ ایک بار پھر ایسا ہی انقلابی اقدام اٹھائیں اور خصوصی بچوں کے لیے خصوصی پارک بنائے جانے کے لیے پہلی فرصت میںپرپوزل بنا کر حکومت کو بھجوائیں جس طرح ڈیرہ غازیخان میں ماڈل کے طور پر خانہ بدوشوں کا سکول قائم ہوا ہے اسی طرح یہاں خصوصی بچوں کے لیے خصوصی پارک کا ماڈل بھی دیں ۔ اس کے لیے پہلے سے کئی وسائل اور ذرائع و انتظامات موجود ہیں ۔کمشنر افس کے پیچھے اور کچہری روڈ پر ایک چلڈرن پارک ہے جو کہ کبھی باغیچہ اطفال کے نام سے اور کبھی عظمت پارک کے نام سے موسوم ہوااور ان دنوں ارشاد نوحی پارک کا اس پر بورڈ لگا دیا گیا ہے۔اصولی طور پر یہ باغیچہ اطفال یعنی چلڈرن پارک ہے ۔جس کی کچھ سالوں پہلے تزین وآرائش کی گئی ہے۔ مکمل چاردیوری اورگراسی پلاٹ کے علاوہ ٹریک بنے ہوئے ہیں ۔اس پارک کو خصوصی بچوں کے پارک میں تبدیل کیا جائے اس کے لیے بہت کم بجٹ کی ضرورت ہوگی۔راقم نے اپنے ذرائع سے یہ پتہ کرایا ہے کہ خصوصی بچوں کے پارک کے لیے کس قدر وسائل یعنی بجٹ کی ضرورت ہے ۔ ڈسٹرکٹ اوکاڑہ اور ساہیوال میں صرف ڈیڑھ کروڑ سے یہ پارک بنائے جارہے ہیں اور دونوں پارک امسال جون تک مکمل ہوجائیں گے،جبکہ یہاں کافی کام پہلے ہی ہوا پڑا ہے۔اس کے لیے بجٹ اور بھی کم ضرورت ہو گا۔
تحریر: ریاض جاذب