ماہِ رمضان کی صورت میں ہمیں ہر سال بھیجا جانے والا یہ انعام اپنے دلوں اور جسموں کو پاک کرنے کا ایک خصوصی موقع ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے اور رب کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ویسے تو ہماری پوری زندگی اس مقصد کے لیے ہونی چاہیے، مگر اللہ تعالیٰ نے سال کے اس دورانیے کو سب سے اچھا وقت قرار دیا ہے۔
امین احسن اصلاحی کے مطابق جیسے مادی دنیا میں موسموں کے اعتبار سے فصلوں کی بوائی اور کٹائی مخصوص ہے اور کوئی دوسرا وقت اس کا ازالہ نہیں کر سکتا، اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایسے ادوار ہوتے ہیں جب ہماری روحانیت سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ ماہِ رمضان ہے۔ گناہوں کی معافی طلب کرنے، روح کو پاک کرنے، اچھائی کرنے، اور روح کا سکون حاصل کرنے کے لیے اس سے اچھا اور کوئی وقت نہیں ہو سکتا۔
رمضان کے ظاہری معنیٰ تو صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے اجتناب کے ہیں۔ روزے کی یہ صورت ہزاروں سالوں سے انسانوں میں جاری ہے اور یہ کسی غلطی پر پچھتاوے کی علامت ہے۔
یہ اسلام سے پہلے کے عرب میں بھی عام تھا۔ اگر مقصد صرف یہی ہوتا، تو یہ صرف بھوک اور پیاس ہوتی، اور اللہ کی خواہش بھوک و پیاس نہیں ہے۔ اگر انسان خود کو روز مرہ کی بنیادی ضروریات سے روک لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگ رمضان میں یہی کرتے ہیں۔
اللہ کا انسانوں کو پہلا تحفہ عقلیت پسندی کا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی کتابیں اور اپنے پیغمبر دیے تاکہ وہ دنیا کے ان کٹھن راستوں پر عقلیت سے کام لے کر اللہ کے پیغام کو سمجھ کر آگے بڑھنے میں ہماری رہنمائی کر سکیں۔
ماہِ رمضان میں ہی قرآن نازل ہوا۔ یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ نے فرقان، یعنی سچائی اور باطل میں فرق کرنے والی کتاب کہا ہے۔ رمضان اس عظیم کلام کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ دن کے کچھ گھنٹوں کے لیے ہماری بنیادی ضروریات سے رک جانے کی اللہ کی ہدایات کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں خوفِ اللہ پیدا ہو، اور ہمیں یہ گہرا احساس ہو کہ قرآن ہمارے لیے اس دنیا اور اس کے بعد والی دنیا کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔
رمضان میں روزوں کا بنیادی پہلو اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہے، جس کے احکامات کی وجہ سے ہم کھانے پینے سے رک جاتے ہیں، بھلے ہی ہمارا کتنا ہی دل کیوں نہ چاہے۔ اپنی ان قدرتی خواہشات کو دبانے سے ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم اس کے کنٹرول میں ہیں اور اپنے جسم کو خوراک فراہم کرنے جتنا بنیادی کام بھی اس کے احکامات کے بغیر نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر سکتے ہیں، تو ہمیں اپنے غصے، نفرت، لالچ، منافع خوری، ظلم، مختصراً ہر اس چیز پر قابو پانا ہوگا جس کے لیے ہم اگلی زندگی میں اس کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
ہمارا اگلی دنیا پر یقین، اور یہ ایمان مضبوط ہونا چاہیے کہ بھلے ہی اس دنیا میں عدل نہ ہو مگر اگلے جہان میں ہر کسی کو عدالتِ الہٰی سے مکمل انصاف ملے گا۔ اگر ہم یقین نہیں رکھتے کہ ہمارے ہر اقدام پر ہمارا مواخذہ ہوگا، تو اللہ کے کسی بھی حکم کے سامنے جھکنا بے کار ہے۔
اسلامی اعتبار سے روزے کا مطلب صبر سے کام لینا، اور ان اقدامات سے خود کو روکنا ہے جو عام طور پر اپنی حسیات کی لذت کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ جب رمضان میں ہماری جسمانی قوت اتنی نہیں رہتی، اس کے باوجود اپنی سوچوں اور اپنے اقدامات پر ہر لحظہ نظر رکھنا ہی وہ چیز ہے جو ہماری روحانیت میں اضافہ کرتی ہے۔
اگر ہمیں غصہ دلایا بھی جائے تو ہمیں خود کو اور دوسروں کو بتانا چاہیے کہ ہم روزے سے ہیں اور کسی بھی منفی تحرک پر توجہ اور ردِ عمل نہیں دیں گے۔ ان بابرکت دنوں میں ہمارے دن اور راتوں کو عبادت میں، سمجھ کر قرآن پڑھنے میں، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے گزرنا چاہیے جو کہ دوسرے اوقات میں غیر ضروری ٹی وی دیکھتے ہوئے یا بھوک مٹاتے ہوئے گزرتا ہے۔
روزے کا مقصد بھوک اور پیاس کا تجربہ کرنا بھی ہے جس سے ہماری طرح کے کروڑوں لوگ ہر وقت دوچار رہتے ہیں۔ 30 دن کا یہ تجربہ اس لیے ہے تاکہ ہمارے اندر کفایت شعاری اور سادگی، ہمدردی، محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے، اور وسائل کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی سمجھ پیدا ہوسکے۔
بدقسمتی سے روزے کا وقت تمام ہوتے ہی ہم کھانے پینے اور شاپنگ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ سچ بات ہے کہ رمضان میں سب سے زیادہ خیرات کی جاتی ہے، مگر یہ سچ ہے کہ ہمارے خود پر اخراجات اس ماہ میں بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ اس دورانیے کا مقصد ہمارے اندر باقی کے سال کے لیے گہری اخلاقیات پیدا کرنا ہے۔
ہر سال رمضان ہمیں بطور تحفہ دیا جاتا ہے اور یہ ہم پر ہے کہ ہم اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ ہم اگلے سال زندہ ہوں یا نہ ہوں؟ آئیں ایسی فصل بوتے ہیں جو ہماری موت کے بعد بھی ہمارے لیے فائدہ مند رہے۔