گزشتہ ٢١ تا ٢٣ نومبر ورلڈ ہندو کانگریس کا اجلاس ہوا۔ملک کے دارالسلطنت میں منعقد اس ٣ روزہ پروگرام میں کُل ٢٢ سیشن رکھے گئے تھے اور ہر سیشن کا اپنا ایک الگ موضوع تھا جس پر ملک و بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین نے اظہار خیال کیا۔
ورلڈ ہندو کانگریس کی تاریخ: ورلڈ ہندو کانگریس کی تمام کانفرنس وشو ہندو پریشد کراتی آئی ہے۔ وشو ہندو پریشد کی ویب سائٹ کے مطابق پہلی ورلڈ ہندو کانفرینس جنوری1966 (22,23,24)کو پریاگ میں ہوئی تھی۔ اس کا موضوع تھا ”ساتھ بڑھیں، ساتھ اظہار کریں” (Step Together, Express Together)۔ اس اجلاس میں بہار، بنگال اور اتر پردیش کے گورنز کے علاوہ نیپال کے وزیر اعظم تلسی گری وغیرہ شریک ہوئے تھے۔ اس پہلے وشو ہندو سمیلن یا ورلڈ ہندو کانفرینس کی صدارت مغربی بنگال کے ریٹارڈ چیف جسٹس رام پرساد مکھرجی نے کی تھی۔ معلوم ہو کہ رام پرساد مکھرجی، شیام پرساد مکھرجی کے بھائی ہیں۔
ورلڈ ہندو کانگریس کے قیام کا مقصدساری دنیا میں موجود ہندو آبادی کی مذہبی اور ثقافتی حفاظت ہے اور ان پر کیے جا رہے ظلم و ستم کو ختم کرانا ہے۔ ان کے اپنے کتابچہ (Brochure)کے بقول، جو اس تنظیم کے غرض و غایت اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتی ہے، ہندو آبادی بالخصوص وہ آبادی جو پاکستان، ملیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، نیپال، بنگلادیش وغیرہ میں موجود ہے اسے زبردست ظلم و بربریت کا سامنا ہے۔انہی جیلنجز کا مقابلہ کرنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے 22,21 اور 23 نومبر 2014 کو یہ کانفرینس منعقد کی گئی۔
“Given this scenario that confronts Hindus, it is necessary to assemble once again to formulate the effective strategies and solutions as well as mobilising the means to address these myriad challenges.”
(World Hindu Congress, Brochure, Page 3)
ورلڈ ہندو کانگریس – 2014 جیسا کہ شروع میں اس اجلاس کے متعلق چند باتیں آگئیں تاہم اس تین روزہ پروگرام کے اور بھی کئی اہم پہلو قابل توجہ ہیں۔اس بار کی کانفرنس میں تبت کے مذہبی پیشوادلائی لاما شریک تھے۔واضح ہو کہ سب سے پہلے اجلاس میں بھی دالائی لاما موجود رہے تھے۔ان کے علاوہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، وی ایچ پی لیڈر اشوک سنگھل، پروین توگڑیا، یو نین ریل منسٹر سوریش پربھو، یونین پاور منسٹر پیوش گوئل وغیرہ بھی موجود تھے۔
اس اجلاس کے چند ایک بیانات کو چھوڑ کر پرنٹ میڈیا نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ بلکہ ہم میں سے اکثر لوگ اس کانفرینس کے انعقاد کے تعلق سے بھی لاعلم رہے ہوں گے۔اشوک سنگھل کے اس بیان کو سب سے زیادہ میڈیا کوریج ملی جس میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کی حاکمیت ٨٠٠ سال بعد اصل ہندوئوں (Proud Hindus) کے ہاتھ میں آئی ہے۔ اس بیان پر کوئی تعجب یا حیرانی نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ یہی باتیں نریندر مودی بھی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں۔ الیکشن کے دوران کی ریلیوں میں اور پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کو ٨٠٠ سال بعد آزادی ملی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اشوک سنگھل واجپئی حکومت کو بھی اصل ہندوئوں یا ہندتوا حکومت کے زمرہ میں شامل نہیںکرتے ہیں۔ وہ پرتھوی راج چوہان کے ٨٠٠ سال بعد سیدھے نریندر مودی کو “Proud Hindu”حاکم مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنسکرت کو لازمی سبجیکٹ کے طور پر اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کے متعلق بھی باتیں آئیں۔ اس تعلق سے دینا ناتھ باترا گجرات اور اب ہریانہ میں کافی جدوجہد کر رہے ہیں۔سب سے اہم بات جومیری اس تحریر کا باعث بنی وہ ہے اس اجلاس کے آخری دن ایک پیمفلٹ کا تقسیم ہونا۔اس ایک صفحہ پر مبنی پمفلٹ کی سرخی تھی:
M5: The Biggest Enemy Of Hindu Society
M5یعنی Malicious 5(پُر آزار ٥) کو راکشس مایسور کی پانچ انگیوں سے تشبیح دیا گیا ہے ۔وہ پانچ ایم اس طرح ہیں-
M1 : مارکسزم (Marxism)
M2: میکائولزم (Macaulayism)
M3: مشنریز (Missionaries)
:M4 میٹریلزم (Materialism)
M5: مسلم اکسٹرمزم (Muslim Extremism)
ان پانچوں کاواحد مقصدا س پیمفلٹ کے مطابق Dharma Bull کی بنیاد کھوکھلی کرنا ہے۔آگے چل کر اس کتابچہ میںسب کی الگ الگ وضاحت کی گئی ہے۔ قارئین کی معلومات کے لئے پانچوںکے متعلق جو باتیںکہی گئی ہیں وہ اختصار کے ساتھ پیش ہے: ١) مارکسزم: اس پیپر کے مطابق مارکسزم اس پنجے کا انگوٹھاہے جس کی کئی ناجائز اولادیں (سوشلسٹ، لبرلز، مائووادی وغیرہ)ہیں۔ مارکسزم نے ہندوستانی نظام صحافت، نظام تعلیم پر قبضہ کیا ہوا ہے اور انہوں نے مسلمانوں کی خون آشام تاریخ پر بڑی خوبصورتی سے پردہ ڈال دیا ہے۔
٢) میکائولزم: ہندو تہذیب، تاریخ، روحانیات اور معاشرے کو مغربی تہذیب نے پورے طور پر اپنے محاسرے میں لے لیا ہے۔ اس پیمفلٹ کے مطابق ہمارا (ہندوئوں کا) معاشی، پارلیمانی، تجارتی نظام یہاں تک کہ ہمارا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا، انداز گفتگو بھی مغربی تہذیب کا کاربن کاپی ہے۔ میکائو لزم کے ذیر اثر ایک شخص یہ مانتا ہے کہ ودیشی ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں(Foreign is always superior)۔ ٣)مشنریز: مغربی دنیا عیسائیت سے بیزار ہے چناچہ وہاں کی مشنریز مشرقی ممالک میں اپنا کام کر رہی ہیں۔یہاں کی اچھی خاصی آبادی اپنی تہذیب اور ثقافت سے لاعلم ہے اور اکثریت غریبوںکی ہے، اس کا فائدہ یہ مشنریاں اٹھا رہی ہیں۔
٤) میٹریالزم: اس پیپر کے مطابق میٹریالزم ایک بہت سنگین معاملہ ہے جو ہمیں درپیش ہے۔ یہ مغربی اصطلاحات ”انفرادیت اور آزادی رائے” کی بات کرتاہے۔ انگریزی اسکول، فیشن ٹرینڈس، ٹی وی اور فلمیں اسی کی پیداوار ہیں۔ یہ ہمیں خودپسندی، مفاد پرستی اور مادیت پرستی کی طرف راغب کر رہا ہے اور اپنی تہذیب سے متنفر بھی کر رہا ہے۔ ٥) مسلم انتہاپسندی: یہ اسلام کا بہت ہی زہریلا پھل ہے۔ اسلام کا مقصد مسلمانوں کو برین واش کرنا، خوف دلانا اور زبردستی جہاد کے راستے پر لانا ہے ساتھ ہی ساتھ ہندو سوسائیٹی کو مفلوج بھی کرنا ہے۔اس کے علاوہ اس میں اسلام کے ساتھ جنگ کو سب سے طویل جنگ بھی کہا گیا ہے۔پیمفلٹ میں اس بات کو محض مفروضہ بتایا گیا ہے کہ اسلام وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کو مثال ذریعہ یوں سمجھایا گیا ہے:
”۔۔۔اسلام میں لچک ہے یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ نازسم تبدیل ہو کر ایک بہترین جماعت بن سکتی ہے۔” اپنی بات: ہندتوا ابھی ایک زبردست تضاد کے دور سے گزر رہا ہے اور شاید یہی تضاد اسے اور کمزو ر کر دے گا۔ایک طرف پیمفلٹ اور کانفرنسز کے ذریعہ مغربی ماڈل کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے وہیں دوسری طرف ان کے اپنے رہنما میڈسن سکوائر کی ایک گلامرس تقریب میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ہالی ووڈ کے مشہو ر اداکار کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نظر آتے ہیں۔خود ان کی یہ تقریب ایک فلم فیر شو سے بھی کہیں زیادہ چکا چوند والی تقریب معلوم ہوتی تھی۔
کبھی کبھی کسی چیز کی شدید مخالفت دوسرے گروہ کی شدید حمایت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ Moral Policingکے خلاف Kiss of Loveکی مہم چھیڑ دی گئی۔ بہت تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے پر اپنے پرانے نظریات کو باقی رکھنا اور اس کی توجیح کرنا بلاشبہ سنگھ کے لئے ایک نہایت مشکل کام ہے۔ سنگھ سنسکرت کو لازمی اور انگریزی اسکول اور اس کی تعلیم کی مخالفت تو کر سکتا ہے مگر اس کا متبادل دینے سے بھی قاصر ہے۔کیا سنگھ کے پاس سنسکرت میں موڈرن میڈسن، کمپیوٹر پروگرامنگ اور ایڈوانس انجینئرنگ کی کتابیں ہیں؟ شاید آج کے دور میں یہ تمام کتابیں انگریزی، فرنچ،رشین، سپانش اور چائنیز کے علاوہ دوسری کسی بھی زبان میں اتنی تعداد میں موجود نہ ہوں گی کہ جس کو پڑھ کر کوئی ان شعبہ جات میں عبور حاصل کر سکے۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی جماعت اور اپنے مذہب و مسلک میں ہو رہی تبدیلیوں اور نقل و حرکت پر تو نظر رکھتے ہیں مگر مخالفین کے درمیان کیا چل رہا ہے اس سے بالکل ناواقف رہتے ہیں۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہماری منصوبہ بندیاں اور لائحہ عمل مخالفین کی سازشوں کا جائزہ لے کر بنائے جاتے۔ ۔مسلم شریف کی حدیث ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی سوراخ سے کئی کئی بار ڈس لئے جاتے ہیں پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔
جس طرح سے معاندین اسلام ہمارے درمیان داخل ہو کر ہماری ساری نقل و حرکت پر نگاہ رکھ رہے ہیں اور اسی کے مطابق اپنی سازشیں بنا رہے ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان کے دائو بیچ کو سمجھنے کے لئے ان کے درمیان رہنا ہوگا اور اسی کے مطابق منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم ازکم اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ان کی تقریبات، کانفرنسز وغیرہ پر ہماری نگاہ ہو۔
تحریر :سید صفوان غنی،