انڈونیشیا کے دوسرے بڑے شہر سورابایا میں 3 مسیحی عبادت گاہوں پر حملے کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بچوں سمیت ایک خاندان کے پانچ افراد نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر خود کش حملہ کردیا۔
واضح رہے کہ 13 مئی کو ایک ہی خاندان کے افراد نے سانتا ماریہ کیتھولک چرچ، انڈونیشین کرسچن چرچ اور پیٹیکوسٹ سینٹرل چرچ میں خود کش حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ تفتیش کاروں کے مطابق چرچ پر حملہ کرنے والے خاندان 2 کم عمر لڑکیوں سمیت 6 افراد پر مشتمل تھا اور انہوں نے اتوار کی صبح عبادت کے اوقات کار کے دوران حملہ کیا۔
ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں کے پیچھے مبینہ طور پر داعش کے نظریات سے متاثر گروہ ملوث ہوسکتا ہے۔ کچھ روز قبل دارالحکومت جکارتہ کے مضافات میں قائم ایک ہائی پروفائل جیل میں قید عسکریت پسند گروہ کے متعدد ارکان کو فرار کرانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس حملے میں انڈونیشیا کی سیکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
پولیس کے چیف ٹیٹو کارناوین نے بتایا کہ سورابایا میں ایک علیحدہ خاندان نے پولیس اسٹیشن پر خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 2 موٹرسائیکل پر سوار 5 افراد زخمی ہوئے جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے’۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوار خاندان کی ایک 8 سالہ بچی بچ گئی جسے طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ اس کی ماں، باپ اور 2 بھائی ہلاک ہو گئے۔
پولیس نے تصدیق کی کہ چرچ پر حملہ کرنے والا خاندان شامی پناہ گزین گھرانہ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ چرچ پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور خود کش حملہ آوار خاندان کا سربراہ ڈیٹا اوئیپر یتو انڈونیشیا میں دولتِ اسلامیہ (داعش) سے متاثرہ تنظیم جامع انشورت دولہ (جے اے ڈی) کی مقامی شاخ کا متحرک رہنما تھا۔
3 مسیحی عبادت گاہوں پر حملہ آوار خاندان سورابایا میں 3 مسیحی عبادت گاہوں پر حملے کرنے والے خاندان کے حوالے سے علاقہ مکینوں نے بتایا کہ وہ عیسائی پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے اور متوسط طبقے سے تعلق تھا۔ پڑوسیوں کے مطابق ایسے کوئی شواہد کبھی سامنے نہیں آئے جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ حملہ آوار خاندان پرتشدد حملوں کی منصوبہ بند کررہا ہو۔
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ وہ خاندان علاقے میں گزشتہ 17 برسوں سے رہائش پذیر تھا اور ان کا والد ہربل ادویات کا کاروبار تھا جس سے معقول آمدنی ہو رہی تھی۔ پولیس کے مطابق اتوار کی صبح 16 اور 18 سالہ 2 لڑکیوں نے چرچ کے بیرونی احاطے میں داخل ہو کر خود کو بارودی مواد سے اڑا دیا تھا جبکہ ان کی ماں نے اپنی 9 اور 12 سالہ بیٹیوں کے ہمراہ دوسرے چرچ میں حملہ کیا جبکہ بچوں کے باپ نے تیسرے چرچ میں کاربم کے ذریعے حملہ کیا۔ حملہ آوار خاندان کے پڑوس میں مقیم عیسائی فیملی نے بتایا کہ ‘بچوں کی ماں کے ہمراہ اکثر مقامی مارکیٹ میں جایا کرتی اور متعدد مرتبہ کھانا یا پھل کا تبادلہ بھی کیا’۔