وادی سون کے پہاڑوں سے اترنے والی سردی جب ہڈیوں کے آر پار گزرنی شروع ہوئی تو میں نے اپنے گاؤں سے بھاگ کر لاہور کا قصد کیا جو اب میرا دوسرا گاؤں ہے لیکن افسوس کہ لاہور نے بھی اپنے اس بیٹے کی نگہداشت سے انکار کر دیا اور وہ سردی جو پہاڑی گاؤں میں تھی لاہور میں بھی میرے جسم سے چمٹ گئی اور اس سے قبل کہ وہ جسم کے بعد ہڈیوں کے آر پار بھی ہو جاتی، میں لاہور کے گرم کمبلوں میں لپٹ گیا اور ہیٹر جل اٹھے، ان کی سرخ آگ مجھے تسلی دینے لگی کہ فکر نہ کرو سردی کب تک اور پھر تم ہوگے اور تمہارے شہری فیشنی کپڑے جن پر سردی خوش ہوتی ہے کہ اب یہ اس کا کچھ بگاڑ نہیںسکتی اور سردی آرام کے ساتھ گرم جسموں سے لپٹ کر موسم سرما گزار لیتی ہے لیکن اس سال سردی غلط فہمی میں مبتلا رہی اور وہ سردی جو وادی سون کے پہاڑوں پر جنم لیتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پہاڑوں سے نیچے میدانوں میں اتر آتی ہے، اس سال پہاڑوں سے جیسے ناراض ہو کر بے تکلفی سے پہاڑوں سے ایسی اترتی کہ دور دور تک پھیل گئی اور گرمی کو بہت دور پھینک دیا۔
اب شکست خوردہ گرمی سردی کو جھانک کر دیکھتی ہے اور سردی کا ایک تھپیڑا کھا کر واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے میدانی جمع پہاڑی علاقوں میں موسم کی یہ آمدورفت جاری رہتی ہے اور اسی میں ایک پورا موسم گزر جاتا ہے۔ ہم لوگ ہر موسم کے عادی ہوتے ہیں اور کسی بھی موسم کو گزار لیتے ہیں۔ نہ گزاریں تو موسم کا کیا جاتا ہے وہ ہمیں گزار لیتا ہے اور اس کی ایک مقرر رفتار ہے جس کے مطابق اسے اپنا سفر طے کرنا ہے موسم انسان پسند کریں نہ کریں ان کا اتنا اختیار ہے کہ وہ موسم سے بچاؤ کے لیے اپنا انتظام کرلیں۔ سردی ہے تو گرم لباس پہن لیں اور آگ جلا لیں جسے سینک کر وہ اپنا وقت گزار لیں اور موسم کی سختی کو اپنے سے دور رکھیں۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے لیکن اس کا اختیار صرف موسم کے دفاع تک محدود ہے موسم تو جو آنا ہے وہ آئے گا ہی۔ اس پر قابو پانا آپ کے اختیار میں ہے۔
ہم وادی سون کی سخت سردی کے عادی لاہور کی سردی کی پروا نہیں کرتے لیکن موسم بہر حال اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اگر گرمیوں میں پسینے نکلتے ہیں تو سردیوں میں جسم سن ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر انسان ہر موسم کا علاج رکھتا ہے۔ موسم کے ساتھ کھانا پینا بدل جاتا ہے لباس میں تبدیلی آ جاتی ہے بستر بدل جاتے ہیں اور ہر موسم کے مطابق گھر کا ماحول بھی۔ البتہ موسم سے پیدا ہونے والی مجبوریاں نہیں بدلتیں۔ ہمارے گاؤں کا ایک فوجی سپاہی کوئٹہ کی یخ بستہ فضا کے علاقے میں تبدیل ہو گیا ہر فوجی سپاہی کی طرح اسے بھی گھر کی یاد آتی تھی اور بہت آتی تھی اس نے تڑپ کر گھر والوں کو خط لکھا کہ یہاں سردی کا یہ حال ہے کہ گھر یاد آتا ہے تو آنسو نکل آتے ہیں مگر یہ آنسو آنکھوں سے گر کر گالوں پر جم جاتے ہیں کیونکہ سرد ہوا نہیں بہنے نہیں دیتی۔
جہاں ان کا ٹھنڈی یخ بستہ ہوا سے سامنا ہوتا ہے وہیں جم جاتے ہیں۔ اور گھر کی یاد بھی ان کے ساتھ چپ ہو جاتی ہے۔ بس اب تو چھٹی کا انتظار ہے جو دو ماہ بعد ملے گی اور ایک مہینے کی یہ چھٹی میں آپ سب کے ساتھ گزاروں گا اور اب یاد کر کے مجھے بتا دیں کہ آپ کے لیے کیا کیا لے کر آنا ہے کیونکہ میرے پاس خریداری کا وقت بہت ہے اور تنخواہ بھی ملنے والی ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہاں اتنا بتا دیں کہ میری گدھی (کھوتی) کا کیا حال ہے جو گزشتہ دنوں بیمار رہی اور اس کے بچے کا کیا حال ہے جس نے ذرا بڑے ہو کر میرا بوجھ اٹھانا ہے۔
یہ کسی ایک فوجی کے خط کا اقتباس ہے جو اپنے گاؤں سے کہیں دور نوکری کر رہا ہے اور آنے والی چھٹی کے انتظار میں وقت کاٹ رہا ہے۔ گھر خط لکھتا ہے اور اپنی گدھی تک کو یاد کرتا ہے۔ یہ اس کی اس کے گھر سے وابستگی کی علامت ہے اور اسی گھر میں واپسی کو یاد کرتا ہوا وہ نوکری کے دن کاٹ رہا ہے اور فوجی زندگی کی سختیاں سہہ رہا ہے جو اس کی نوکری نے اس پر مسلط کر دی ہیں اور جن سے چھٹکارا بہت مشکل ہے فوج کی نوکری سے الگ ہونا ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ ایسے سخت قوانین ہیں کہ فوج سے علیحدہ ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک بورڈ بنتا ہے جس کا اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔ بہر کیف فوج میں نوکری حاصل کرنا اور پھر اس سے الگ ہونا دونوں زندگی کے بڑے لمحے ہیں اور شاذونادر ہی کسی کو یہ دونوں نصیب ہوتے ہیں۔ موسم اور نوکری کا ذکر ختم۔