کہتے ہیں خوش گمانی بہت ہی خطرناک بیماری ہے، ایک بار کسی کو لگ جائے تو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ آج کل یہ بیماری بھارت اور اُس کے حکمرانوں کو لگی ہوئی ہے۔ اُڑی حملے کے بعد کی گئی سازش کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان تو بس ترنوالہ ہے، مٹھی میں لیا اور دبا دیا۔ لیکن بھارت پر حقیقیت اُس وقت آشکار ہوئی جب جنگ کا ماحول قائم کیا گیا۔ بھارت کا یہ خیال تھا کہ پاکستان شاید حالات سے خوفزدہ ہوجائے گا، لیکن اُس کو پریشانی اُس وقت ہوئی جب پاکستان نے بھی منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیاری مکمل کرلی۔ جب بھارت اِس میدان میں پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکا تو اُس نے سوچا کیوں نہ 1960ء میں طے پائے جانے والے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرکے پاکستان کو پانی روکنے کی دھمکی دی جائے لیکن یہ ناپاک اور پست ترین ارادہ اُس وقت ذلت و رسوائی کا ذریعہ بن گیا جب مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پارلیمنٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو یہ عمل اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو پھر چین کو بھی بھارت کا پانی روکنے کا جواز مل جائے گا۔
دونوں ممالک کے تعلقات کئی بار خراب ہوئے اور نوبت جنگوں تک جا پہنچی لیکن کبھی سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بات نہیں کی گئی لیکن اڑی حملے کے بعد نریندر مودی کی اس سوچ نے دفاعی ماہرین کو بھی حیران کرکے رکھ دیا کیوں کہ سندھ طاس معاہدہ صرف دو ممالک کے درمیان ایک سمجھوتہ ہی نہیں بلکہ اس میں ورلڈ بینک ضامن بھی ہے، اگر اس قسم کی کوئی بھی حرکت کی گئی تو یہ صرف ایک معاہدہ ختم کرنے تک ہی محدود نہیں ہوگا بلکہ اسے عالمی بغاوت قرار بھی دیا جاسکتا ہے۔
تو اِس صورتحال میں بات کو کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ
گھر سے چلے تھے کسی کو تنہا کرنے
راستے میں خود ہی تنہا ہوگئے
اڑی سیکٹر پر حملے کے نتیجے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد مودی سرکار پاکستان کو بدنام اور نقصان پہنچانے کے لئے ایک کے بعد ایک حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اول الذکر مودی سرکار کو مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر محدود پیمانے پر جنگ چھیڑ دی جائے تاہم پاکستان کی جانب سے بھرپور جواب کے بعد اس فیصلے پر نظرثانی کی گئی جس کے بعد پھر مشورہ آیا کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کیا جائے لیکن کس طرح؟ اس پر اب بھی غور و خوص کیا جارہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کا خیال تھا کہ آبی جارحیت سے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر خاموش کرایا جاسکتا ہے لیکن اس وقت نریندر مودی کے تمام ارمان ٹھنڈے ہوگئے کہ جب بھارتی دفاعی امور کے ماہرین اور سندھ طاس معاہدے کی سمجھ بوجھ رکھنے والی اہم شخصیات نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا کیوںکہ اگر بھارت پاکستان کا پانی بند کرتا ہے تو اس صورت میں اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ چین سے بھارت کو آنے والا پانی بھی بند ہوسکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
سندھ طاس معاہدہ ستمبر 1960ء میں صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان کراچی میں ہوا جس میں ورلڈ بینک نے سہولت کار کا کردار ادا کیا جس کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہوگا جبکہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھارت پاکستان کی جانب بہنے والے پانی پر کوئی ڈیم بھی بنانے کا مجاز نہیں ہوگا۔
اگر بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ توڑا گیا تو بھارت کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ہی دفاعی ماہرین نے انہیں اپنی سوچ بدلنے کا مشورہ دیا جس کے بعد انہوں نے ایسا نہ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی کیوںکہ اگر بھارت پاکستان کا پانی بند کرتا ہے تو چین بھارت کو جانے والے براہماپترا دریا کا پانی بند کرسکتا ہے، یہ وہی دریا ہے جس کے ذریعے بھارت میں موجود 2 اہم اور مقدس سمجھے جانے والے دریا گنگا اور جمنا کو پانی ملتا ہے۔ بھارت قطعاً یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرتے کرتے وہ خود تنہائی کا شکار ہوجائے۔
سندھ طاس معاہدہ توڑنا نریندر مودی کی سفارتی شکست خوردہ سوچ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر انہوں نے سفارتی شکست مان کر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ٹھان لی لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک ملک کے وزیراعظم ہیں اور اگر پڑوسی ممالک کو کسی معاملے پر شکایت ہوتی ہے تو اس کے حل کے لئے سفارتی چینل کو اپنانا چاہیے، ہاں اگر پھر بھی کوئی بات نہ بنے تو دونوں ممالک کے سربراہان مملکت آگے بڑھ کر بات چیت کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں لیکن مودی حکومت نے اڑی حملے کے بعد تحقیقات کا انتظار کئے بغیر پاکستان کو مورد الزام ٹہھرا دیا اور محدود جنگ کی دھمکی دینا شروع کردی۔ شاید بھارت بھول بیٹھا ہے کہ جنگ کے آغاز کا اختیار تو ممالک کو حاصل ہوتا ہے لیکن جنگ کا اختتام کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتا اس لئے یہ خیال نادانی کے سوا کچھ نہیں کہ محدود جنگ کے بعد معاملات ٹھیک کرلیے جائیں، یا کسی ملک کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے اور وہی روایتی الزام تراشی کی جائے اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو 65 سال قبل ہونے والا معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی جائے۔ یہ سب روایتی چیزیں ہیں اور اس طرح ممالک کے اختلافات ختم نہیں ہوا کرتے۔