تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ریاکاری کا ناسورہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے اِنسانوں کے لئے باعث ِندامت اور سخت ذلت و رسوائی کا سبب بنارہاہے اور آج بھی اِس کی کیفیات کچھ مختلف تو نہیں ہے مگر بس..!! آج کے اِس مادہ پرست اِنسانوں کے دورمیں فرق صرف اِتناہے کہ موجودہ لمحات میں ریاکاری کا احساس ذراکچھ ختم ہوگیاہے ورنہ آج بھی ریاکاری ہمارے معاشرے کے ہراِنسان(جن میں خاص و عام سب ہی شامل ہیں) میں ایک سو ایک فیصدسے بھی تجاوزکرگئی ہے۔
ویسے تو ہر دورمیںہی ریاکاری ایک ایسی اِنسانی اور معاشرتی بُرائی تصورکی گئی ہے جس کی وجہ سے اِنسان اور معاشرے دوواضح حصوں میں بٹ جاتے ہیں دنیا کے جن معاشروں اور اِن معاشروں کے جن اِنسانوں میںریاکاری کا عنصر غالب ہووہ ایک ایسی اخلاقی بیماری میں مبتلاہوتے ہیں جس کا علاج مشکل ہی سے ہوتاہے ریاکاری جیسی بیماری کا شکارہر وہ اِنسان ہوتاہے جو یہ سمجھتاہے کہ وہ اپنی ریاکاری اور مکاری سے وہ تمام مقاصدحاصل کرلے گااِس نے جن کے بارے میں پہلے سے منصوبہ بندی کررکھی ہوتی ہے۔ آج ہمارے مُلک کے حکمران ، سیاستدان اور عوام سمیت مقدراداروں کے رہنماو¿ں میںریاکاری اور مکاری کا عنصر کچھ زیادہ ہی غالب ہوچکاہے،جبکہ مُلکی حالات اور واقعات تو اِس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں مگر وقت اور حالات واقعات کی ہر سنگین نزاکت سے بے نیاز ہمارے کرتا دھرتا بدقسمتی سے ریاکاری اور مکاری میں کچھ ایسے مگن ہیںکہ آج اِنہیں ہر معاملے میں اِس کے سوائے کچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہاہے ایسے میں اِن سب کی ریاکاری کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے خاص طور پر عوام کو ریلیف دینے کے معاملے میں تو حکمرانوں ، سیاستدانوں اور ریلیف دینے والے اداروں کے سربراہان کی ریاکاری اور مکاری آسمانوں کی بلندیوں کو چھورہی ہے اور اِن کی ریاکاری اور مکاری اورخودفریبی پر مبنی یہ جملے کہ” اپنے مختصرسے دورِ حکومت میں مُلکی مسائل اور عوام کو درپیش مشکلات پر قابوپالیاہے اور تمام مسائل کے فوری حل کے لئے قومی خزانے سے کثیررقوم خرچ کی جارہی ہے آج اگر اتناکچھ کرنے کے بعد بھی کسی معاملے میں عوام کو ریلیف دیاگیاتو قومی خزانہ خالی ہوجائے گا ہم ایسانہیں کرسکتے ہیں قوم کو حالا ت کا مقابلہ کرنے کے لئے مہنگائی اور دیگرمسائل کا سامناکرناپڑے گا اور تمام تکالیف کوبرداشت کرتے ہوئے کڑوی گولیاں نگلنی ہوںگیں“ یہ وہ فریب کُن الفاظ اور جملے ہیں جو کھلم کھلاحکمرانوں، سیاستدانوںاور عوام کو ریلیف دینے والے اداروں کے سربراہان کی ریاکاری اور مکاری کے عکاس ہیں۔
اب ایسے میں یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ خواہ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان کے مُلکی معاملات ہو یا ذاتی لین دین کا کوئی مسئلہ ہر جگہہ اور ہر کام میں سب کی ریاکاری اورمکاری ایسی رچ بس گئی ہے کہ اَب کوئی بھی چاہئے کہ اِس کے سحر سے نکل جائے تو بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوگا(ہاں اِس سے نجات کے لئے بس …!صرف ایک صورت ہوسکتی ہے جس کا میں اگلی سطور میں تذکرہ کروں گا)اِس کی وجہ یہ ہے کہ اَب ریاکاری اور مکاری کا سلسلہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور دیگر ذرائع سے ہوتاہواعوام الناس تک کچھ اِس انداز سے پہنچاہے کہ اَب کوئی بھی چاہتے ہوئے کہ اِس سے بچ جائے نہیں بس سکتاہے یعنی آج اگر ریاکاری اور مکاری کو منافقت کا نام بھی دے دیاجائے تو کوئی بُرانہ ہوگا۔
اِس سے انکار نہیں کہ آج میرے دیس پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پربہت سے معاملات میں بے شمار سنگین چیلنجز کا سامناہے ہاں ہم اِن سے تب ہی نبردآزماہوکرسُرخروہوسکتے ہیں جب حکمرانوں ، سیاستدانوں،قومی اداروں کے سربراہان اورقوم کے ہر فرد کوریاکاری سے پاک سچے اور نیک دلی جذبات اور کھلے دل ودماغ کے ساتھ آگے بڑھ کر مقابلہ کرناہوگااِس کے بغیر ہم کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اور ریاکاری اور مکاری و خودفریبی سے جھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے پہلے تو ہم سب کو اپنے آپ سے فرداََ فرداََ خودہی جنگ لڑنی پڑے گی اور جب ہم یہ محسوس کرلیںگے کہ ہم نے خوداحتسابی کے عمل سے گزرکراپنے اندرسے ریاکاری ،مکاری اور خودفریبی کے جراثیم کو ختم کرلیا ہے تو پھر ہمیں کسی بھی سنگین چیلنج سے نمٹنے میں جتنی آسانیاں پیداہوں گیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔
اِس موقع پر مجھے شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یادآرہی ہے چاہوں گاکہ میں اُسے اپنے قارئین کے لئے بیان کرتاچلوں”ایک ریاکاردرویش جس کی درویشی محض دکھاوے کو تھی ایک روزیہ بادشاہ کا مہمان بناجب شاہی دسترخوان پرکھاناآیاتو اِس درویش نے سیرہوکر نہ کھایابس یہ بتانے اور جتانے کے لئے کہ اللہ والے زیادہ نہیں کھاتے تھوڑابہت چکھااور دسترخوان سے اُٹھ گیااور جب نماز کا وقت ہواتو بادشاہ کے ساتھ نمازپڑھنے کے لئے کھڑاہوگیااور اِس نے اتنی لمبی نماز پڑھی اوردکھاوے کے لئے برے خصوع وخشوع کے ساتھ دُعامانگتے ہوئے اِس قدرٹسوئے بہائے کہ جبہ دستارگیلی ہوگئی یہ سب کرکے ثابت یہ کرناتھاکہ اللہ والے ایسے نمازپڑھتے ہیںجب یہ ریاکار درویش گھرآیاتو اِس نے آتے ہیں کھانامانگایہ دیکھ کر اِس کے باشعوربیٹے نے اِس سے کہاکہ”آپ کو بادشاہ نے ضیافت میں مدعوکیاتھاکیا آپ نے وہاںکھانانہیں کھایا..“اِس پر ریاکاردرویشن نے کہا”وہاں اِس لئے کھاناکم کھایاکہ بادشاہ کے دل میں اپنی پرہیزگاری کی دھاگ بیٹھانامقصودتھابس ایک دونوالے کھاکر ہاتھ کھینچ لیا اِس لئے گھرآکے دوبارہ کھارہاہوں “اِس پر بیٹے نے جواب دیا“ پیرومرشد!پھر تو آپ نماز بھی دوبارہ پڑھیںکہ وہ بھی آپ نے وہاںبادشاہ کے دل پر عبادات گزاری کی دھاک بٹھانے کے لئے پڑھی ہوگی خداکے لئے نہیں“حضرت سعدی ؒ نے اپنی اِس حکایت میں یہ بتایاہے کہ ریاکاراپنی ریاکاری اور عیاری سے لوگوں کوتودھوکادے سکتاہے مگراُس خداکونہیں ..جس کے سامنے روزِ آخرت حاضرہوناہے جب اِس کی ریاکاری سخت عذاب کا موجب ہوگی لہذاحکمرانوں،سیاستدانوں اور ہمارے ایسے قومی اداروں کے سربراہان جو عوام کو مہنگائی اور دیگر سہولیات زندگی کے معاملات میں ریلیف دینے سے کتراتے ہیںاور خسارے کاروناروکرریاکاری و مکاری کا سہارالیتے ہیں اور مکاری کرتے ہیں اِنہیںچاہئے کہ وہ ریاکاری اور مکاری کو دھونگ کرناچھوڑدیں اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور اِن کے بنیادی حقوق کو ریاکاری سے پاک کرکے دلانے میں اپنادینی اور اخلاقی فریضہ اداکریں اور یہ یادرکھیں کہ اِن کا عوامی خدمات سے منہ پھیرنے کا عمل روزقیامت خداکے عذاب کی پکڑ میں لے جائے گا،اور اِن کا یہ جھوٹ بھی کہ اِنہوں نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے بہت سے ترقیاتی منصوبے تیارکرلئے ہیں اِن منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ہی عوام کو ریلیف ملنے شروع ہوجائیں گے یہ بھی ریاکاری اور مکاری کے مزرے میں آتاہے جبکہ ابھی تک ایساکچھ بھی نہیں ہواہے جس کا حکمران، سیاستدان اور عوام کو ریلیف دینے والے اداروں کے سربراہان دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اِن کا یہ عمل اور جھوٹ بھی شیخ سعدی ؒ کے اس ریاکار درویش کی طرح ہے جس کی درویشی محض دکھاوااور جھوٹ اور فریب پرمبنی تھی۔(ختم شد)
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com