تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
آج پاکستانی قوم مہنگائی کے بوجھ تلے دبی چلی جا رہی ہے۔ کوئی اس مظلوم قوم کی فریاد سننے والا اس ملک کی قیادتوں میں تو دکھائی دیتا ہی نہیں ہے ۔ہر سیاست دان اس ملک میں موقع ملتے ہی لوُٹ کھسوٹ میں اپنے ساتھیوں سے بازی لے جانے کے موڈ میں ہوتا ہے۔اور اسُ کے دل و دماغ میں یہ ہی سودا سمایا ہوا ہوتا ہے کہ اگر وہ سیر تھا تو میں سوا سیر ہوں (سیر ماضی میں کلو کی جگہ استعمال ہوتا تھا جو وزن میں کلو سے کچھ ہی کم ہوا کرتا تھا)آج ایک آدھ کے سوائے تمام سیاسی مہرے میلینرز ہیں جو طریقے طریقے سے ٹیکس چوری میں بڑے سے بڑے چور وں سے بھی آگے دیکھے جا سکتے ہیں ۔مگر ان کی چوریوںپر جو ہاتھ ڈالے گا اسُ کے ہاتھ جلا دیئے جائیںگے۔اس ملک کا جاگیر دار کوئی نسلوں سے جاگیر دار نہیں ہے بلکہ انگریز کے کتوں کو نہلانے اور اور اپنی قوم و وطن سے غداری کے صلے میںانگریز نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضے کے لئے ان لوگوںکے بڑوں کو استعمال کیا ۔جس کے صلے میں ان کے اجداد کو ناصرف جاگیریں غاصب انگریز نے عطاءکیں بلکہ کے انہیں سر، خان او رمخدوم بھی بنا دیا۔
جو آج تک مختلف حوالوں سے اس وطن کے لوگوں کا ناصرف خون چوس رہے ہیں بلکہ اس مملکت، خداداد کے مالک و مختار بھی بنے ہوئے ہیں۔یہ جاگیر دار ہی آج کا سرمایہ دار بھی ہے۔ان میں سے اکثر ملوں اور کاخانوں کے مالک اس طرح بن گئے ہیں کہ جو کچھ ان کی زمینوں پر پیدا ہوتا ہے اُس کا یہ لوگ کوئی ٹیکس بھی نہیں دیتے ہیں اورجوپیداوار ان کی زمنیوں پر ہوتی ہے اُسی کی انہوں نے صنعتیں بھی لگا رکھی ہیںکسی کی ٹیکسٹائل ملز چل رہی ہیں تو کسی کے شوگر ملز ، کسی کے فوڈ پروڈکٹ کے کار خانے ہیں تو کوئی مسالحہ جات بنا رہا ہے ۔یہ لوگ اس وطن کی مٹی کو تباہ تو کر رہے ہیں ۔مگر اس کی آبیاری کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔وہ کسان و مزدور جو ان کی زمینوں یا ملوں میں کام کرتے ہیں اُن کی حیثیت ان کے نزیک غلاموں کی سی ہے۔کسان اگر اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اُس کو نسلوں کے خاتمے کی دھمکیاں یہ لوگ دیتے ہیں اور ایسا کر بھی دیا جاتا ہے۔ مل مزدور جس کو یہ اپنے ٹٹووں کے ذریعے مل میں ملازم رکھتے ہیں حکومت کی مقرر کر دہ تنخواہیں تک ٹھیکیداری نظام کے تحت نہیں دیتے ہیں ۔اگرمزد ر حقوق کی بات کرتا ہے تو اُس کی روزی روٹی چھین کر کان پکڑ کر مل کے دروازے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔
غریب کسان و مزدورکا پاکستانی معاشرے میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔جہاں پیٹرول پر پانچ روپے بڑھے وہیں ملک میں مہنگائی پندرہ سے بیس فیصد تک بڑھا دی جاتی ہے۔اس کھیل میں ملکی کمپنیوں سے کہیں آگے ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوتی ہیں ۔جنہیں کوئی بھی پوچھنے پکڑنے والا نہیں ہے!!! شائد ان کمپنیوں میں بھی انہی جاگیرداروں سرمایہ داروں کے شیرز ہوتے ہیں جو اتنے بڑے مہنگائی کے جرم پر بھی ہماری اسمبلیوں میں ان پر کوئی آواز تک نہیں اُٹھاتا ہے۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک میں سب سے بڑا مہنگائی کا بازار گرم کرنیوالی ہیں اور ان پر کسی کا چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے۔ملک میں مہنگائی کا دوسرا بڑا مافیہ ٹرانسپورٹر ہیں۔یہ بھی اس ملک( اور خاص طور پر کراچی )میں شُطر بے مہار ہے۔ٹراسپورٹ جو چلتی تو سی این جی پر ہے مگر پیٹرول کی قیمتیں بڑھتے ہی ان کے کرایوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ا ن کو کوئی اس وجہ سے پوچھنے والا نہیں ہے کہ ان کی بڑی تعداد پولیس آفسرز کی ملکیت ہے۔ اس ظلم کا شکار بھی غریب اور مزدور طبقہ ہی ہوتا ہے۔آج ملک مہنگائی کے ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا ہے۔جس کی وجہ ہمرا جاگیر دار، سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں ۔جس سے ملک کاغریب روزانہ انفرادی اور اجتماعی خود کشیوں پر مجبور ہے۔
آئے دن خبریں آتی ہیں کہ ایک باپ نے اپنے بچوں اور بیوی کو زہر دے کر یا گولی مارکر خود بھی خود کشی کرلی یا غربت کی ماری ماں نے چار بچوں کے ساتھ دریا میں چھلانگ لگا کر خوڈکشی کر لی ہے۔جس کی وجہ بھوک مہنگائی افلاس اور بے روزگاری تھی۔ہر روز ایک دو خاندانوں کی پورے پاکستان سے اس قسم کی خبروں سے اخبار اور الیکٹرانک میڈیا دلوں کو دہلا رہے ہوتے ہیں۔جس کا ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں ، سرمایہ داروںاور زور آوروں پر تو کوئی اثر ہوتا نہیں ہے۔ مگرغریب گھرانوں کے سربراہوں پر اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔جو دوسرے لوگوں کو بھی ایسا کرنے پر اُکسا رہے ہوتے ہیں۔ملک میں مہنگائی ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔یہ غربت و افلاس،بے چارگی،بے لباسی اور شیلٹر کا نہ ہونا ہی تو ہے جو لوگوں کو نقب زنی، چوریوں اور ڈکیتیوںکے ساتھ خود کشیوں پر اُکسا رہا ہوتا ہے۔مگر حکمران چین کی بنسی بجا رہے ہوتے ہیں۔
جہاں سب ٹھیک ہے کا ورد جاری رہتا ہے۔
آج یکم جنوری 2015 کوتیسری مرتبہ پیٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے ۔جو 109،روپے سے کم ہوکر 78،روپے فی لیٹر پر آگئی ہے یعنی 31،روپے ایک لیٹر پر کم ہو چکے ہیں۔ مگرحکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے مہنگائی کا عفریت اپنی جگہ پر موجودہے۔ کہ ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا ہے۔ہر جانب بے حسی سی بے حسی ہے!!!کہ کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگی ہے ۔مہنگائی ہے کہ ختم ہی ہونے میں نہیں آرہی ہے۔کوئی بتائے ؟ کہ ہم بتائیں! کیا دالوں کی قیمتیں کم ہوئیں؟کیا چینی آٹے کی قیمتیں کم ہوئیں؟کیا ادویات کی قیمتیں کم ہوئیں؟کیا ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہوئے؟کیا سیمنٹ اور سریئے کی قیمتیں نیچے آئیں؟لُٹیروں کی لوٹ مار اُسی طرح جاری ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔غریب اسُی طرح خود کشیاں کر رہے ہیں۔ ہر زی شعور اس سوچ میں گم ہے کہ اس نا انصافی سے اسے کیونکر نجات ملے گی؟کیا حکومت اس قدربے بس ہے کہ غریبوں کی اموات کے باوجود بھی کہیں سے انصاف کی رمق تک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ جس طرح پیٹرول پر پانچ روپے بڑھنے پر 15،سے20 ،روپے مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا تھا۔اسی طرح پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کے 31 ،روپے فی لیٹر کم ہو جانے پر کم از کم 30،فیصد ہی مہنگائی کم کردی جاتیجو نہیں ہوئی۔
حکومتِ وقت کو چاہئے کہ سب سے پہلے ملٹی نیشنلز کو لگام دے کر کہا جائے کہ کم از کم اپنی اشیا کی قیمتوں میں ہر صورت میں 30، فیصد کی کمی کریں۔ ان کو پاکستان میں لوٹ مار کا بازار بند کرنے کا حکم دیا جائے ۔تاکہ عوام کو پیٹرولیم کی قیمتوں کے کم ہونے کا کچھ تو فائدہ ہو۔اس کے ساتھ ہی حکومت تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میںاتنی ہی کمی کروائے۔تاکہ روز مرہ ی خود کشیوں کا سلسلہ کچھ تو کم ہو۔ تاکہ غریب کو اس کا برائے راست کچھ تو فائدہ پہنچے۔عوام چیخ رہے ہیں کہ مہنگائی کا عفریت پاکستانی قوم کا پیچھا کب چھوڑے گا؟
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com