تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی
پیٹرول عالمی بازار میں بدھ کے روز ٤٣ ڈالر فی بیرل تھا اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ ٤٠ ڈالر فی بیرل بھی ہو سکتا ہے۔ تیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والی سب سے بڑی تنظیم اوپیک نے اس کے تیل کی پیداوار کم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی وقتاً فوقتاً پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوتی رہی ہے، مگر آج ملک میں جو حال پیٹرول کا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے، اور نہ ہی بحران کے حل کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ کراچی میں بھی پیٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیا ہے، آج صبح ہی میں نے یہ دیکھا کہ کراچی میں بھی اکثر پیٹرول پمپ بند پڑے ہیں اور لوگ پیٹرول پمس کے باہر بے یارو مددگار کھڑے ہیں۔پنجاب کا حال تو آپ کے سامنے ہی ہے روزانہ میڈیا یہ نظارہ بہت خوب دکھا رہا ہے اور ہم دنیا بھر میں شرمندگی سے دوچار ہو رہے ہیں۔
پہلے ہی مہنگائی عروج پر ہے، خدا خدا کرکے پیٹرول پر کچھ پیسے کم کئے گئے تو اب پیٹرول ناپید کر دیا گیا ہے۔ ظاہراً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر پیٹرول کی قیمتیں کم ہوتیں ہیں تو ہر چیز کی قیمتِ خرید میں کمی ہونا لازمی امر ہے مگر ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ پیٹرول کے نرخ تو کم ہوگئے مگر اشیائے ضرورت کی چیزوں کے نرخ آسمان سے ہی باتیں کر رہی ہیں۔ بجلی کی فی یونٹ نرخ بھی عروج پر ہی ہیں جس میں ابھی تک کوئی کمی نہیں کی گئی۔ جبکہ اگر پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو اسی وقت سے تمام اشیائے ضرورت کی چیزوں کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے جس کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج ہی سوشل میڈیا پر ایک تصویر آئی ہے جس میں رکشہ کا پیٹرول ختم ہوچکا ہے اور وہ اسکول کے بچیوں کو اسکول چھوڑنے جا رہا تھا ، تصویر میں واضح نظر آ رہا ہے کہ جس میں اسکول کی بچیاں رکشے کو دھکہ دے رہی ہیں۔ مائی گاڈ! یہ کیسا نظام ہے جہاں عوام کی حالت بد سے بد تر کی طرف رواں دواں ہے، عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں؟
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا بھر میں ٹیکنالوئی کا دور دورہ ہے اور ہر کام بہت منظم طریقے سے انجام پاتا ہے۔ مگر ہم اپنے ملک کی وزارتوں پر صرفِ نظر کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کئی وزارتیں، ادارے اب بھی پتھر کے دور کا گمان پیش کر رہی ہیں پوری دنیا میں عوامی کاموں کو آسان بنایا جاتا ہے مگرہمارے ملک میں عوام کی زندگی کو مشکل بنانے کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ پیٹرول کا بحران لگ بھگ ایک ہفتے سے چل رہا ہے مگر اربابِ اختیار کی آنکھیں پتہ نہیں کیوں وقت پر نہیں کھلتیں، جب بحران اپنے بامِ عروج پر پہنچ جاتا ہے تب بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ادھر اُدھر کی باتیں کی جاتی ہیں، میڈیا پر سوائے بہانے بنانے کے اور کچھ نہیں کیا جاتا۔ پیٹرول زندگی کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے اس سے کون واقف نہیں، پیٹرول نہ ہو تو نوکریوں پر جانا، اسکول، کالج اور جامعات کو جانا دشوار ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ اور بچے اگر اسکول ، کالج اور جامعات نہ پہنچیں تو اُن کے تعلیم کا حرج ہوتا ہے، لوگ اگر اپنی نوکریوں پر نہ پہنچیں تو گھر کا دال دلیہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، کاروباری طبقہ اپنے کاروبار کو نہیں چلا سکتا، غرض کہ زندگی کے تمام کام ہی رُک سے جاتے ہیں۔ اور یہاں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سارے مسائل تو ہمیں ” ورثے ” میں ملے ہیں۔ مان لیا جائے کہ یہ تمام مسائل ورثے میں ہی ملے ہیں تو کیا نئی حکومت کا کام نہیں کہ وہ ان تمام مسائل سے نبردآزما ہوکر منظم اور ٹھوس پالیسی مرتب کریں تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی بحران پیدا ہی نہ ہو۔حکومت کا کام ہے کہ وہ صرف ایک ہی کام کی طرف یکسوئی نہ دکھائے ملک کے تمام ہی مسائل پر اُن کی نظر یکساں ہونی چاہیئے۔
سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ لاہور میں جو پیٹرول پمس کھلے ہیں وہاں پیٹرول بلیک میں فروخت کیا جا رہا ہے، لوگ پیٹرول کی تلاش میں در بدر پھر رہے ہیں، طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں ، اکثر شاہراہوں پر گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند پڑی ہیں۔ خاص طور پر ایمبولینسوں کے لئے پیٹرول نہ ہونے پر مریض بے انتہا پریشان ہیں، دفاتر اور اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجائے یہ کہ ان سب حالتوں کو بہتر بنایا جائے ، اس پر یکسوئی سے کام کیا جائے، مگر نہیں! بلکہ یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ یہ مسئلہ مزید کئی روز تک رہ سکتا ہے۔اس طرح تو یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو سکتا ہے۔ اس پر فوری حکومت کو ایکشن میں آنا چاہیئے تاکہ عوام اپنے روز مرہ کاموں کو بہتر طور پر انجام دے سکیں۔
بقول منیر نیازی ” ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ہر کام کرنے میں ” یہ جملہ ہمارے ملک کے وزارتوں اور اُن کے ارباب پر مکمل طور پر صادرآتا ہے کہ ہم کوئی کام وقت پر نہیں کرتے ، جس کی وجہ سے اس طرح کے بحران جنم لیتے رہتے ہیں۔ پیٹرول کے نرخ تین ہندسوں سے دو ہندسوں پر آگیا ہے مگر بجلی فراہم کرنے والے اداروں نے ابھی تک بجلی کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی، جبکہ پیٹرول اور فرنس آئل کے مہنگا ہونے پر یہ ادارے فوری طور پر بجلی کے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ کیا اس پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ پہلے روٹوں کی گاڑیاں پیٹرول اور ڈیزل پر چلا کرتی تھیں آج کل زیادہ تر گاڑیاں سی این جی پر چل رہی ہیں۔جبکہ لانگ روٹوں پر سی این جی پر گاڑیاں چلانے پر غالباً پابندی بھی ہے۔ جب پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں تو ان گاڑی مالکان نے بھی کرایہ کم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری گاڑیاں سی این جی پر ہیں اس لئے کرایہ کم اُس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک سی این جی کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔ یہ کیسا اندھیر نگری چوپٹ راج ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ دنیا کا ہر ملک اور ہر ادارہ بشمول حکومتیں غلطیوں سے مبّرا ہیں لیکن چونکہ غلطیوں سے ہی سیکھنے کا دارومدار ہوتا ہے اس لئے ہر باشعور اس سبق کی روشنی میں ہی اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں لگ بھگ ہر شعبے میں بحران کے بعد بھی اس کی تلافی اور اس سے مزید بچنے کے لئے کوئی حکمتِ عملی ترتیب نہیں دی جاتی۔ ہم کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بناتے کہ مستقبل میں ایسے بحران جنم نہ لیں۔ اگر یہی وطیرہ جاری رہا اور ہم نے اپنے اطوار نہیں بدلے تو ممکن ہے کہ ہم ترقی یافتہ قوم میں اپنا شمار نہ کر سکیں۔ اس لئے ہمارے معزز حکمرانوں کو یکسوئی کے ساتھ تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر نئے سرے سے پالیسی ترتیب دینا چاہیئے تاکہ ہماری قوم بھی ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو سکیں۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی