گویا یہ الیکٹرانک میڈیا آجکل معلومات پہنچاناکم اورسامعین کو فتح زیادہ کررہا ہےبریکنگ نیوز کے ذریعے عوام الناس
کے نظریات کو ایک سمت دی جا رہی ہے گویا اینکر حضرات اپنے نام و مقام کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام الناس کو اور خصوصاً نوجوان نسل کو حقیقت سے دور کرتے جا رہے ہیں ۔حکمران جماعت اور دوسری سیاسی پارٹیوں سے وابستہ درباری صحافی اس طرز عمل کو تیزی سے اپنا شعار بنا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں وزیر اعظم پاکستان کی سرکاری ٹی وی پر تقریر سے قبل ایک کہنہ مشق صحافی اور ن لیگ کی میڈیا سیل کی انچارج مریم نواز شریف صاحبہ وزیر اعظم کی تقریر کو پر اثر بنانے کیلئے اپنی قیمتی رائے سے نواز رہے تھے بلکہ یوں کہیے کہ عوام الناس کے معصوم ذہنوں کو فتح کرنے کیلئے الفاظ کی کمانیں سجا کر دے رہے تھے اور تقریر کے دوران وزیر اعظم کو میڈیا سیل اور کہنہ مشق درباری صحافیوں کی مدد سے عوامی لشکر کے ذہنوں کو فتح کرنا تھا اور پھر اس ویڈیو اور اس تقریر پروہ لے دے ہوئی کہ عوام آج تک کنفیوژں میں ہیں کہ تقریرکی حمایت کرنے والے سچے ہیں یا اسکے خلاف جانے والے اینکرز گویا دونوں رخ سے عام سامعین وناظرین بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اب عوام کی خدمت پر کم اور میڈیا کو کنٹرول کرنے پر زیادہ توجہ دینا شروع ہوگئی ہیں۔ کیونکہ اصل جمہوریتوں میں تو فنڈز خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ہم عوام ہو کر مسائل کی بیخ کنی کرنی پڑتی ہے اور تو اور لوگوں کی خوشی و غمی کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے صحت وصفائی کی سہولتوں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے ہر وقت لیڈران کرام کو الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ اور تو اور عوامالناس کے بدلتے ہوئے مزاج کو سمجھنے کیلئے حلقے کے چکر لگانے پڑتے ہیں مگر ہمارے ہاں اب یہ مشق سرے سے کرنی ہی نہیں پڑتی کم از کم میں اپنے حلقے کے منتخب لیڈران کے بارے میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں مئی2013کے بعد حرام کی حد ہے اگر ہمارے ووٹوں کے طلبگار بلدیاتی الیکشن کے علاوہ ہمارے پاس بھی پھٹکے ہوں تو جناب اس کی ضرورت ہی کیا ہے ہر پارٹی کے ہر رکن اور چھوٹے سے چھوٹے ورکر نے بھی اخبار اورالیکٹرانک میڈیا پر کوریج حاصل کرنے کیلئے فنڈز کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ بس عوام کو سہولتیں دینے کی کیا ضرورت ہے شدید گرمی میں روزے کی حالت میں بھی لائن میں لگ کر بھی وزیر اعلیٰ آٹا لے لیں گے اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں گے ۔ آپ بس میڈیا پر رمضان بازاروں کی چرچا کردیں۔ اور ڈی سی اوز اور فوڈ انسپکٹرز کو دھڑا دھڑا بازاروں میں قیمتیں معلوم کرنے اور چور بازاری کی بیخ کنی کی خبریں چلواتے رہیں عوام خوش ہوتے رہیں گے۔
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے عید قربان کو بھی دلچسپ بنا دیا ہےاور اس موقع کے تمام مصائب و آلام کو کہیں دور گہرے اندھے کنیوں میں ہی چھپا دیا ہے۔ آپ کو میڈیا پر ہر وقت جانوروں کی سیلفیاں دکھائی جارہی ہیں۔ بھات بھات کے جانوروں کی بولیاں بھی سنوائی جارہی ہیں۔ یہاں تک کہ بیوٹی پارلرز پر سجتے ہوئے بکرے ، گائے بیل بھی دکھا ئے جا رہے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دفعہ عید قربان پر چور بازاری اور تاجروں کی من مانیاں عروج پر تھیں گزشتہ عید الاضحیٰ کے مقابلے میں اس مرتبہ دوگنی اور چوگنی قیمتیں آغاز سے ہی سنت ابراہیمی پر عمل کرنے کی خواہشوں کے آگے دیوار بن رہی تھیں۔
کالعدم تنظیموں پر کھالیں اکھٹی کرنے کی پابندی کو یقینی بنایا گیا اور بہت حد تک اس پابندی کو کامیاب بنا لیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مرتبہ اجتماعی قربانی کا وہ رواج عام نہیں تھا جو مذہبی جماعتوں کی طرف سے ہوتا تھا۔ گویا کالعدم تنظیمیں ہی اجتماعی قربانی کیلئے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ابھارنے میں سرگرم عمل ہوتی تھیں لہذا پابندی کی بنا پر تمام تنظیمیں غیر فعال اور اجتمای قربانیاں عوام الناس نے اپنی استطاعت کے مطابق گلی و محلے میں ہی کی ہیں یا پھر ایدھی فائونڈیشن اور شوکت خانم وغییرہ جیسی قابل اعتماد تنظیموں کو ہی اجتماعی قربانیوں کے فنڈز دیے گئے ہیں۔ مگر آپ اور ہم سب ان اور اس جیسی بہت سے قیمتی معلومات سے بے بہرہ ہی رہے کیونکہ ایسی خبریں روٹین کی ہیں اور ان سے ریٹنگ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں لہذا میڈیا نے آپ کو ریٹنگ کیلئے ایسی خبریں نہیں دیں ۔ سو وہی المیہ ہے کہ معلومات کم اور سنسنی زیادہ ہوتی جار ہی ہے۔
بعض دفعہ تو انتہائی مضحکہ خیز صورتیں سامنے آتی ہیں یہ کم بخت بدلتے ہوئے حالات انسان سے کیا کیا نہیں کراتے ۔ ایک چینل بارش کی تعریف کرتے ہوئے اچانک دھوپ کے قصیدے شروع کردیتا ہے ۔ جب لوگ بہار کی امید لگائے بیٹھے ہوں تو چینلز خزاں کے کلپس بار بار ری پلے کر کر کے چلا رہے ہوتے ہیں، جب لوگ سردیوں میں برفباری کی آمد کا انتظٓر کر رہے ہوتے ہیں تو میڈیااچانک شدید گرمیوں کے مشروب بیچ رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس صورتحال میں عام آدمی اس معلومات کے بہائو کا ایک فتح شدہ جزیدہ بن گیا ہےعوام الناس تو میڈیا پرسنز کے تیزو تند اور پھر اچانک نرم و ملائم لحجوں کی وجوہات سمجھ نہیں پاتے مگر ایک صحافی یا تجزیہ کرنے والے اساتذہ ان بدلتی ہوئی روشوں کو بخوبی سمجھ جاتے ہیں۔ سنسنی خیزی کو بڑھاوا دینا اس دور میں بہت آسان ہو چکا ہے
نوجوان نسل چونکہ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا سے غافل ہوکر انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ پر بھی خاص کر سوشل میڈیا سائٹس پر زیادہ مصروف نظر آتے ہیں، تو اخبار مالکان نے بھی سوشل میڈیا پر توجہ تیز کر دی ہے وہ دن دور نہیں جب صحافی صرف وہ ہوگا جس کے ساتھ کیمرہ اور ہاتھ میں مائیک ہوگا۔ اور اخبار صرف آن لائن پڑھنے کی چیز رہ جائیں گے۔ الیکٹرانک میڈا درالاصل بہت حد تک زندگیوں میں شامل تو ہو چکا ہے مگر چونکہ معاشرے اور لوگ بدلائو کو بہت آئستہ اور غیر محسوس طریقے سے قبول کرتے ہیں اس لئے ابھی تک پرنٹ میڈیا جو کہ بہت حقیقی اور دیر پا ہوتا ہے ابھی تک ہماری زندگیوں کا حصہ ہے مگر الیکٹرانک میڈیا کی جو غیر مستقل مزاجی اور حقیقت سے دور رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری ہے وہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اور بھی قائم رکھے ہوئے ہے
ایسا لگتا ہے جیسے الیکٹرانک میڈیا کے کھلاڑیوں جنھیں ایک کنہ مشق سیاست دان نے اداکار کہہ رکھا ہے نے اثر انداز ہونے کیلئے اپنا ایک مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے اور آپ دیکھیں گے کہ مافیا کے ارکان اپنی اپنی صلاحتیوں اور انداز بیان کے اعتبار سے ایک دوسرے کے جڑواں بھائی لگتے ہیں۔ ان فنکاروں نے اپنی اپنی دکانوں کی طرف راغب کرنے کے لئے مل کر سوشل میڈیا پر ہی ایک ایجنسی بنائی ہے جس کا نام ہے “اوپر سے کچھ اندر سے کچھ ایجنسی” ۔ اس نیوز ایجنسی کے خبروں کی سرخیوں ،تجزیوں اور تبصروں میں استعمال ہونے والا مواد کچھ ایسا ہوتا ہے:
سب کچھ دوں فتوں ہوتا جا رہا ہے‘‘،’’ فلاں نے دھماکہ کر دیا‘‘، ’’ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں مگر ہم وہی کہیں گے جو عوام کی آواز ہے‘‘، کوئی دیکھے نہ دیکھے ہم تو دیکھین گے‘‘، یہ میں آپ کو پروگرام کے آخر میں بتائوں گا کہ چڑیا نے چوگ لیا ہے یا نہیں‘‘، ایک سیاسی پارٹی نے اینکرز خرید لئے‘‘،’’کچھ ایسا جسے جان کر آپ کے پاوں سے زمین نکل جائے گی‘‘’’ وہ 100 باتیں جنہیں جان کر آپ ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں‘‘،’’ وہ 100 باتیں جو خواتین کو پسند ہوتی ہیں‘‘،’’ وہ 100 باتیں جن کے ذریعے مرد عورتوں کو پٹا سکتے ہیں‘‘،
’’ وہ 100 باتیں جن کے ذریعے عورت مردوں کو پٹا سکتی ہیں‘‘،’’ازدواجی فرائض ادا کرنے کے لئے کونسا وقت موزوں ہے، سائنس نے بتادیا‘‘،’’کھلبلی مچ گئی‘‘،’’ خطرے کی گھنٹی بجا دی‘‘،’’آخر وہ کام ہوگیا جس کا سب کو انتظار تھا
گزشتہ ایک عشرے سے میڈیا عوام الناس کے حواس پر اثر اندازہو رہا ہے ایسے میں مخلصانہ صحافت خال خال ہی رہ گئی ہے ۔ بریکنگ نیوز کا ایک فیشن بن گیا ہے جس میں عوام کو معلومات دینا جو کہ اصل مقصد صحافت ہے مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔
جی ہاں تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ اس مافیا کا حصہ کتنے ہی مشہور و معروف نام ہیں ۔اور اس مافیا کا کون کون سے ادارے حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آپ بالکل درست سوچ رہے ہیں، جی ہاں! اس مافیا میں تمام نامور میڈیاچینلز کے اینکرز پرسن اور مشہور و معروف صحافی شاملہیں۔ انہوں نے قسم کھائی ہوتی ہے کہ آپ سے کبھی بھی سچی بات نہیں کرنی اور نہ ہی آپکو حقیقت سے آشنا ہونے دینا ہے اگر ان کا جھوٹ پکڑا بھی جائے تو بھی وہ فورم بدل لیں گے مگر زبان نہیں کیونکہ عوام تو بہت سادے ہیں اور ان کی یادداشت تو بقول اساتذہ کرام نہائت ہی کمزور ہے پہلی کلاس کے بچے کی طرح یہ لوگ ہفتہ دس دن میں بھولکر پھر سے اینکر حضرات کی گن گانے لگتے ہیں۔ اور ایسےمافیا کے لوگ اہم خبروں کے لئے حد سے زیادہ سنسنی خیز اور آدھے سے بھی کم خبر پر مشتمل سرخیاں بنانے کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنی شہرت میں اضافہ کرنے کی پالیسی تبدیل نہیں کرتے۔
تحریر:ایس ایم حسنین
ایڈیٹر یس اردو نیوز
اسلام آباد