لاہور (ویب ڈیسک) کہہ کر مکرجانا‘ غلط ہے یا غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر حالات و واقعات کے مطا بق فیصلہ کرتے ہوئے‘ اپنے اس موقف میں لچک پیدا کرنا‘ بہتر ہے ؟آپ کہتے ہیں کہ میں نے کسی بھی صورت میں اپنا گھر یا پلاٹ نہیں بیچنا ۔ نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ چاہے ‘میرا باپ بھی کہے‘ لیکن حالات کچھ ایسے ہو جائیں کہ آپ کے پاس اپنی عزت یا کاروبار بچانے کیلئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے۔ اس گھر یا پلاٹ کو فروخت کر کے اپنا قرض اتار دیںیا نقصان میں جانے والے کاروبار کو سنبھالا دینے کیلئے وقتی طور پر بادل نخواستہ یہ گھر فروخت کر دیں۔ قرض خواہ کے بار بار تقاضوں اور بلائی گئی پنچایت کی ضمانت دیتے ہوئے پانچ چھ ماہ کی مہلت لے لیتے ہیں‘ لیکن وقت مقررہ پر طے شدہ قرض کی ادائیگی نہیں کرتے ‘بلکہ یہ کہتے ہوئے‘ یکسر مکر جاتے ہیں کہ میں نے تو ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا ‘اسے عام زبان میں کہنا اور مکرنا کہتے ہیں‘ جس کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا اورمکر جانے والے کو کوئی بھی خاندان یا معاشرہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔آپ گھر کے ایک فرد ہیں اور کئی برس بعد بیرون ملک سے واپس آتے ہیں‘ تو یہ جان کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ گھرگروی رکھا ہوا ہے‘ جس میں ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے آپ کا کوئی قصور نہیں‘ لیکن گروی کی رقم اتارنے کیلئے آپ ایسے شخص کے پاس مدد کیلئے جاتے ہیں‘ جس سے آپ نے‘ اپنے لئے ایک پائی نہ لینے کا سب کے سامنے اعلان کر رکھا تھا ‘ تو بتایئے یہ یو ٹرن ہو گا یا گھر کو نیلامی سے بچانے کااحساس؟ دور نہیں جاتے‘ کل کی بات کر لیتے ہیں‘ جب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹونے عام انتخابات سے پہلے اور بعد اپنی ہر تقریر‘ پریس کانفرنس میں کہا تھا : میاں صاحب !اب آپ سے صلح نہیں ہو سکتی ۔اب آپ سے تخت لاہور بھی چھینوں گا اور جیل بھی بھجوائوں گا۔ اسی قسم کی زبان مریم صفدر اور شہبا زشریف نے نہ جانے کتنی مرتبہ زرداری صاحب کے بارے میں استعمال کی ‘لیکن اب دونوں ایک ہیں اور قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر شہباز شریف نے آصف علی زرداری سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی‘ جسے ٹی وی کی سکرینوں پر ہر دیکھنے والی آنکھ نے دیکھا ‘تو کیا یہ یو ٹرن نہیں؟ بانکے‘ سجیلے قسم کے اینکرز پر مشتمل شہر اقتدار پر قابض گروپ کل تک دعویٰ کیا کرتا تھا کہ ہر پوسٹنگ ٹرانسفر ان کی مرضی سے ہوتی ہے اور ایسا ہوتا بھی تھا اور اگر کبھی قسمت کا مارا ہوا کوئی با اختیار افسر ان کی بات پر عمل کرنے سے معذرت کر لیتا یا ان کے دو تین فون سننے کی غلطی کر جاتا تو اس کی ایمانداری اور شہرت کی وہ درگت بنتی کہ اس کے بچے بھی ٹی وی کی سکرین پر ابھرنے والی آوازوں کو سن سن کر شرم سے پانی پانی ہوجایا کرتے تھے۔ ان کا نعرہ ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم‘ ان کی مرضی کے بغیر چند دن سکون سے نہیں گزار سکتا ہے۔ شہر اقتدار کے اس گروپ کے انتہائی تیز طرار اور خوش شکل اینکر نے اپنی زیر صدارت ہونے والے جمعۃ المبارک کی رات گئے مشترکہ‘ بلکہ متفقہ فیصلہ کیا کہ ” اگر عمران خان کو ابھی سے دبایا نہ گیا‘ تو یہ ہم سے بے قابو ہو جائے گا او رپھر یہ کسی کے ہاتھ نہیں آئے گا‘ اس لئے اسے ” پے جائو‘‘ اور بد قسمتی سے ان کے اس فیصلے پر سب سے زیا دہ خوشی چوہدری قسم کے وزیر کو ہوئی ‘جس نے انہیں ہلا شیری دیتے ہوئے کہا: بھائی کل کو پ کے پاس ہی آنا ہے‘ اس لئے ” پے جائو‘‘۔ اس فیصلے اور ہلا شیری کے بعدا یک بہت ہی بانکے ‘سجیلے ‘لیکن مزاج کے انتہائی تیز اینکر جو ہر دو ماہ بعد عمران خان پر اپنا کوئی پرانا غصہ نکالنا شروع کر دیتے ہیں‘ اسی ایک یو ٹرن والے موضوع کو لئے اپنے مزاج اور پسندکے مہمان بلاکر عمران خان کی وہ ایسی کی تیسی کرنے میں لگے ہیں کہ دیکھنے والے اس شک میں پڑ گئے ہیں‘ لگتا ہے کہ کچھ ناراضی ہو گئی ہے۔ اب عمران خان سے ناراضی کس بات پر ہو سکتی ہے؟ چائے یا کافی کے ساتھ اچھے سے سنیک نہیں تھے ‘کھانے کا نہیں پوچھا ‘ یہ تو بہت ہی معمولی سی باتیں ہیں اور ایسی باتوں پر صحافی لوگ ناراض نہیںہوتے‘ کیونکہ وزیر اعظم ہائو س سے نکلنے کے بعد نہ جانے کتنے لوگ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ اپنے دوست کو لے کر کسی فائیو سٹارہوٹل میں کھانا کھلاتے ہوئے‘ خاص خاص خبریں سب سے پہلے براہ راست سننے کو ملیں گی‘ تو پھر ان سب کی ناراضی اور غصے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے‘ تو جناب یہ بتانے کی نہیں‘ سمجھنے کی بات ہے۔ 19 نومبر کو ایک معززاینکراپنے پروگرام میں پاور فل طریقے سے عمران خان پر چڑھائی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ دیکھئے یو ٹرن لیتے ہوئے سعودی عرب کے آگے بھی جھولی پھیلادی ہے اور یہ کہتے ہوئے اینکرصاحب یک دم غصے میں نہیں جلالی کیفیت آ گئے اور پھر عمران خان کی جلسوں میں کی جانے والی وہ تقاریر دکھانا شروع کر دیں‘ جن میں انہوں نے سعودی عرب یا آئی ایم ایف کے سامنے دوسرے حکمرانوں کی طرح امداد کے نام پر ہاتھ پھیلانے کا مذاق اڑایا تھا۔
اپنے منتخب کئے گئے سیا سی مہمانوں کو سامنے بٹھا کروہ مذاق اڑایا گیا لگتا تھا کہ اس یو ٹرن سے اس ملک کا نہ جانے کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے ‘ جبکہ اس دن کسی بھی قومی چینل کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کی ایک لاکھ کے قریب شہادتوں کا مذاق اڑانے کا نوٹس لیتا ‘امریکہ کے سامنے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے کچھ سینئر قسم کے سفارتی اور دفاعی ماہرین کے علا وہ مشہور تجزیہ کاروں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے ہوئے‘ دنیا کو امریکی صدر کی بے خبری سے آگاہ کرتے‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ‘شاید سب نے امریکہ جانا ہوتا ہے ۔ الیکشن مہم کے جلسوں کی تقاریر اور نعروں کی بات کریں ‘تو پھرنواز لیگ کا تو نعرہ ہی یہی تھا: اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی/جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی‘سج دھج کر بیٹھے پی پی پی اور نواز لیگی لیڈران سے ادب سے گزارش ہے۔ جناب والا …آپ عمران خان کی وہ تقریر سناتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی کو ترجیح دیں گے۔ اب وہ آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں‘ تو خود کشی کب کریں گے؟ حضور والا : اس رزق سے موت اچھی ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی‘ کیا نواز شریف نے یہ خود کشی کی بات نہیں کی؟ ان سے قرضے کے رزق کی بجائے موت قبول کرنے کی درخواست کیوں کی ؟ آصف زرداری اور نواز شریف اورشہبازشریف کے مقابلے میں۔ عمران خان کی یہ پہلی حکومت ہے اور اگر تو یہ اس کا دوسرا یا تیسرا دور حکومت ہوتا اورپھر وہ قرضے کیلئے جگہ جگہ جاتا توہم سب کا غصہ کرنا مناسب تھا کہ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد اب وعدے کے خلاف ہر ایک کے سامنے جھولی پھیلا رہے ہو؟ پی پی پی کا 2008-13ء کا منشور اٹھا کر دیکھ لیجئے ‘اس میں واضح طور پر درج ہے کہ سندھ میں حکومت بننے پر ہم پانچ لاکھ گھر تیار کر کے دیں گے۔کد ھر ہیں‘ وہ گھر؟ کہاں بنائے ہیں‘ وہ گھر؟بلاول کو پی پی پی کے پہلے دور حکومت کا ایک نعرہ شاید یاد نہیں‘ جب 1975 ء میں لاہور میں خاکروبوں نے جھاڑو اور بالٹیاں اٹھا کر مال روڈ پر نعرے لگائے تھے ” پچاس روپے کی بوکر تے سو روپے کی بالٹی/ ہائے ہائے پپل پارٹی ‘ہائے ہائے پپل پارٹی ‘‘۔