میرا نام محمد یوسف ہے میں بونیر سوات کا رہنے والا ہوںاور انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے ہمارے جیسے غریب ملکوں کے عوام کیلئے جہاں حکمران غریب لوگوں سے ان کی ہر ضرورت پر بالواسطہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔
مگر ان کی روٹی ، روزگار کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔پھر یہ دنیا کچھ زیادہ ہی دکھوں کو ذریعہ بن جاتی ہے۔ آج آپکو کالم کے ذریعے اپنی فریاد لوگوں تک پہنچا رہا ہوں، میں دو سال سے کمر کی کینسر میں مبتلا ہوں، میں آج کل پشاور کے ارنم ہسپتال جو کینسر کا ہسپتال ہے اس سے علاج کرا رہا ہوں۔
اس سے پہلے گورنمنٹ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور اور شوکت خانم ہسپتال لاہور سے مایوس ہو چکا ہوں، کیونکہ ان ہسپتال کے ڈاکٹروں نے مہنگے ترین ادویات تجویز کی تھی۔
جو میرے خریدنے سے باہر تھی۔ پھر کسی ہمیں پاکستان بیت المال کا پتہ دیا وہاں پر انگریزی فارم پر کر کے جمع کئے چھ مہینے گزر گئے مگر ابھی تک یہی جواب دی ہے کہ فنڈنہیں ہیں۔
پھر محکمہ زکواة اور جتنے خیراتی ادارے ہیں سب سے رابطہ کیا لیکن ان دفتروں میں ہمیں جھوٹی تسلی بھی نہیں دی، پھر ہم ارنم ہسپتال کے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا وہاں پر ٹیسٹوں پر ٹیسٹ کیے، ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے ہمیں ایک انجکشن Zuldix تجویز کیا۔
جو کہ آٹھ انجکشنوں کا کورس ہے، جسے ہر صورت مکمل کرنا ہے ارنم ہسپتال کے انتظامیہ نے کہا کہ ہمارے پاس یہ انجکشن نہیں ہیں کیونکہ یہ انجکشن مارٹ میں دستیاب نہیں ہیں یہ۔
انجکشن کمپنی سے آرڈر پر منگوانے پڑینگے۔ اس ایک انجکشن کی قیمت 17500روپے ہے یہ انجکشن منفی سینٹی گریڈ میں رکھے جاتے ہیں۔
جبکہ دو مہینے کیلئے 8 انجکشن کی قیمت 1,40,000 بنتے ہیں، میں محنت مزدوری کرنے والا مزدور تھا اپنی زندگی اپنے بچوں کے ساتھ خوشی سے گزار رہا تھا بچے اسکول جا رہے تھے ہمیں دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی۔
مگر جب سے کمر کے کینسر میں مبتلا ہوا ہوں کسی کام کاج کا نہیں رہااور مسلسل بیروزگار ہوا اور بیروزگاری کی وجہ سے گھر کی چارپائی پر بے یارو مددگار پڑ گیا۔
اب کوئی کمانے والا نہیں ، مگر جب سے کمر کے کینسر میں مبتلا ہوا ہوں کسی کام کاج کا نہیں رہااور مسلسل بیروزگار ہوا اور بیروزگاری کی وجہ سے گھر میں فاقے شروع ہوگے ہیں گھر کا چولا ٹھنڈا ہو گیا اور یقین جانیئے صبح کا ہوتا ہے اور شام کا نہیں
سفید پوس نوجوان ہوں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا یہاں تک اپنے علاج کیلئے گھر کی ایک ایک چیز بیچ دی ، یہاں تک کہ اپنے بچوں کی اسکول کی کتابیں بھی بیچ دی ۔
روز روز کے افاقوں سے دل براشتہ ہو گیا اور دل میں فیصلہ کیا کہ خود کشی کر لوں مگر اپنے معصوم بچوں کو دیکھ کر یہ بھی نہیں کر سکتااور بچوں کی روز روز کی بھوک بھی برداشت نہیں۔
اخر کار میری بیوی مجبور ہو کر ایک پرائیوٹ اسکول میںتین ہزار روپے ماہانہ پہ خالہ کے طور پر کام کرنے لگی مگر میری بیوی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور سکول سے آتے ایک دو گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے جس سے گھر کی روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے۔
میں کسی کام نہیں ہوں کویہ اللہ کا نیک انسان میرے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھ کر میرے لیے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے بھیج کر میرے ان معصوموں کی دعائیں لیں۔
کوئی صاحب حثیت شخص مجھے دو مہینوں کے 8انجکشن بھیج دے یا کوئی اللہ کا نیک بندہ اپنی اولاد کے سر کے صدقے ایک لاکھ چالیس ہزار عطیہ کرے اپ کی زرا سی امداد سے آپ لوگوں پر بہت کم فرق پڑیگا لیکن میری زندگی میں بڑا فرق آ جائے گا اللہ آپ کو ہمیشہ شاد آباد رکھے۔ آمین۔
آپکا بیٹا محمد یوسف
پیر بابا روڈ، گائوں گوکند بونیر ضلع سوات
عارضی موبائل نمبر0308-5060455