تحریر : نعیم الرحمان شائق
برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک وادی کشمیر لہو لہان ہے ۔یہ وادی اکثر و پیشتر لہو لہان ہوتی رہتی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔اس وادی کے بار بار سلگنے کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ اگر اس دفعہ پچاس سے زائد لوگ شہید اور کئی سو لوگ زخمی ہوگئے تو کیا ہوگیا ۔ جو چیز بار بار ہوتی آرہی ہے ، اس پر احتجاج ، واویلا ، غصہ ، اقوام ِ متحدہ میں آواز اور یوم ِ سوگ کا کیا فائدہ ! ہاں ، اثرات نظر آئیں تو پھر چیخ و پکار بھی ہونی چاہیے ، شور بھی ہونا چاہیے ، احتجاج کی ہڑبونگیں بھی ہونی چاہئیں ۔ اقوام ِ متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے اور یوم ِ سوگ بھی منانا چاہیے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ان ‘حرکات ‘ سے کشمیر کے منظر نامے میں ذرا سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ۔ ظلم اسی طرح جاری ہے ۔تشدد کا اسی طرح عروج ہے ۔ وادی اسی طرح اداس ہے۔
برہان مظفر وانی کا ‘قصور ‘تھا کہ وہ بھارت سے آزادی کا خواہاں تھا۔ اس کے ساتھی بھی ‘قصور وار’ تھے کہ وہ آزادی کے سپنے دیکھ رہے تھے ۔ یہ سارے ‘باغی’ تھے ۔اور ‘بغاوت’ کو حکومتیں معاف نہیں کیا کرتیں ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ جذبہ ِ حریت سے سرشار کیوں تھے ؟ آخر کشمیر کے لوگ بھارتی حکومت سے مایوس کیوں ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے پڑھے لکھے ، باشعور اور مہذب لوگ بھی کشمیر میں بھارتی حکومت کو پسند نہیں کر رہے؟ یہ وہ سوالات ہیں ، جن پر بھارتی حکومت کے دانش وروں اور وہاں کے حکومتی لوگوں کو ایک بار نہیں ، سو بار سوچنا چاہیے ۔ جب ان کو ان تلخ سوالات کے جوابات مل جائیں گے تو ان کا کام آسان ہو جائے گا ۔ لیکن اگر وہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی بہ جائے اندھا دھند فائرنگ کر کے کشمیر میں ہر دم ظلم کی کالی رات بپا کرتے رہیں گے تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ۔بھارت لاکھ ‘اندرونی معاملہ’ کی رٹ لگاتا رہے ، پاکستان سمیت ہر ملک کے وہ مہذب اور معزز لوگ ، جن کے دلوں میں ذراسی بھی انسانیت کا درد ہوگا ، ضرور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیر میں اس طرح شب ِ ظلمت کی تاریکی پھیلا کر کشمیریوں کے دلوں میں اپنا خوف بٹھا لے گا ۔ لیکن یہ اس کی بھول ہے ۔ جب کسی قوم میں جذبہِ حریت پیدا ہوجائے تو پھر دنیا کا کوئی ظلم اس جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا ۔ کشمیر میں پچھلے کئی دنوں سے انڈیا کی فوج ظلم کر رہی ہے ، لیکن اب تک احتجاج جاری ہے ۔ بھارتی فوج لاکھ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح حالات قابو میں آجائیں ، لیکن ان کا یہ ظالمانہ طریقہ کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کی مزید نفر ت پیدا کر رہا ہے ۔ بھارت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ کشمیریوں کے حالیہ احتجاجات کو روکنے کا بھارتی طریقہ درست نہیں ہے ۔ اگر درست ہوتا تو برہان وانی کی شہادت کے دوسرے تیسرے روز بعد یہ احتجاجات رک جاتے ۔ مگر ایساکچھ نہیں ہوا ۔ معاملات بگڑتے گئے پچاس سے زائد لوگ شہید ہوگئے ۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے ۔کئی لوگوں کے گھر اجڑگئے۔
معلوم ہوا ہے کہ کشمیر میں ان دنوں ‘باغیوں ‘ کے لیے چھرے والی بندوقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ بندقیں جان لیوا تو نہیں ہوتیں ، لیکن ان سے متاثرین کو شدید چوٹیں لگتی ہیں ، ایسی چوٹیں ، جو ان کے لیے پوری زندگی کا روگ بن جاتی ہیں ۔ اس گن کے متاثرین کا علاج مہنگے داموں ہوتا ہے ۔ شمالی کشمیر میں رہنے والے کبیر کی دونوں آنکھوں کی بینائی اس چھرے والی ظالم بندوق نے چھین لی ہے ۔ کبیر کی ماں نے اس کے علاج کے لیے اپنے زیورات تک بیچ دیے ۔ پھر پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے قرضے لیے ۔ 15 سالہ عابد میر کو اس بندوق سے چوٹیں لگیں تو اس کا علاج کشمیر کی بجائے امرتسر میں ہوا ۔ اس کے علاج پر دو لاکھ روپے کی لاگت آئی ۔ چھرے والی بندوقوں کی وجہ سے جن لوگوں کی بینائی چلی جاتی ہے ، وہ سخت مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے ، جب چھرے والی اس ظالم بندوق نے ان کی آنکھیں زخمی کردیں ۔ وہ پانچ مرتبہ سرجری کرا چکے ہیں ۔ اب جا کر ان کی بائیں آنکھ میں تھوڑی سی روشنی واپس آئی ہے اور وہ کسی حد تک اس آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں ۔ چودہ سالہ انشا مشتاق بھی اسی ظالم چھرے والی بندوق سے شدید زخمی ہوگئی ہے ۔ انشا مشتاق کا علاج کرنے والے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس کی بینائی کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اب وہ کبھی نہیں دیکھ سکے گی!انشا مشتاق کا چہرہ مکمل طور پر سوج کر بگڑ چکا ہے۔
یہ ظلم کی وہ چند تصویریں ہیں ، جن سے بھارت کے ‘رحم و کرم ‘کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ ورنہ سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصویریں دیکھ جا سکتی ہیں ، جن کے ذریعےاس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت پچھلی نصف صدی سے زیادہ وقت پر محیط عرصے میں کشمیریوں کی خوش نودی حاصل کرنے میں مکمل طور پر نا کام کیوں رہا ہے ۔یہ اکیسویں صدی ہے ۔ یہ صدی تقاضا کرتی ہے کہ شکوہ شکایت کرنے والوں کی شکایتیں سنی جائیں ۔ جو لوگ احساس ِ محرومی کا شکار ہیں ، ان کا یہ جان لیوا احساس ختم کیا جائے ، بہ صورت ِ دیگر غیروں سے زیادہ اپنے لوگوں کی نا پسندیدگی کا نشانہ بننا پڑے گا ۔ اب تو بھارت کے دانشور بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دے دیا جائے۔
تحریر : نعیم الرحمان شائق
shaaiq89@gmail.com