تحریر: امتیاز علی شاکر
اللہ پاک سے دُعا ہے کہ رب رحمن کائنات کے تمام معصوم پر رحمت فرمائے پراس بات کو فائنل کرنا خالصتا مالک حقیقی کے اختیار میں ہے کہ کس پر رحمت ہونی ہے اور کس کا کڑا احتساب۔ یہ بات طے ہے کہ اس دنیا میں کسی کااحتساب ہونہ ہو روز آخرت اللہ تعالی کی عدالت میں سب کا احتساب ہو گا، معصومیت کے دور میں احتساب ایک خواب اور ظلم حقیقت بن چکا ہے، اللہ رب عزت ہمارے عیبوں پر پردہ نہ فرمائے تو سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے کہ کون کتنا معصوم ہے، یہ اللہ تعالی کی خاص رحمت ہے کہ اس دنیا میں ہم بھی معصوم ہیں اور تم معصوم ہو، حال ہی میں کچھ معصوموں کا ذکر وزیراعظم پاکستان نے بھی کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ نیب کو اپنا کام زیادہ ذمہ داری سے کرنا چاہئے۔ نیب والے تصدیق کئے بغیر معصوم لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں، عزتیں اچھالنا اچھی بات نہیں، نیب کے خوفزدہ کرنے کی وجہ سے سرکاری افسر فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ سرکاری افسروں کو ڈرانے پر حکومت اس سلسلے میں ضروری قانونی کارروائی کر سکتی ہے’وزیراعظم نے معصوم کا لفظ کس کیلئے استعمال کیایہ تواللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بقول وزیراعظم سرکاری افسرنیب والوں کے ڈرانے سے ڈرتے ہیں اس بات کا بظاہر کوئی وجود نظر نہیں آتا پر وزیراعظم کے بیان کے بعد قومی احتساب بیوروکاردعمل صاف ظاہرکرتاہے کہ وہ وزیراعظم سے ڈرگئے ہیں ،جی ہاں وزیراعظم کے بیان پرقومی احتساب بیوروکارد عمل سامنے آچکاہے جس میں کہا گیاہے کہ وزیراعظم کی رائے کااحترام کرتے ہیں،احتساب کے عمل کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔
نیب ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب کو بعض قباحتیں ورثے میں ملیں ہیں جن کے حل کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔پہلے تووزیراعظم تسلی رکھیں کہ نیب والے معصوم توکیاکسی ظالم کو بھی بے عزت نہیں کریں گے اوردوسری بات یہ کہ نیب کو ورثے میں ملنے والی قباحتیں دورنہیں ہوسکتی ،وجہ اورکوئی نہیں بس اتنی سی ہے کہ نیب کاڈی این اے کرنے والی کوئی ایجادآج تک نہیں ہوئی اورہوبھی نہیں سکتی۔
وزیراعظم یقین رکھیں جس طرح ماضی میں کبھی کسی اہم سیاسی شخصیت کوسزانہیں ملی آئندہ بھی نہیں ملے گی،یقین نہیں آتاتوسابق صدرپرویزمشرف سے پوچھ لیں جنہوں نے سگین جرائم میں گرفتارکرنے کے بعدمیاں صاحب کونہ صرف ملک سے جانے دیا بلکہ واپس آکرعام انتخابات میں حصہ بھی لینے دیا،مسٹرمشرف سے پوچھوکہ جب میاں برادران عام انتخابات لڑنے کے اہل تھے توپھرکس قانون کے اوراخلاق کی بنیادپروقت کے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اوردیگروزیروں اورمشیروں کونہ صرف برطرف کیابلکہ گرفتارکرکے سنگین نویت کے مقدمات بھی قائم کئے گئے۔
مشرف صاحب جانے کیاجواب دیں گے وزیراعظم کے حالیہ بیان کے مطابق تویہی جواب بنتاہے کہ کسی معصوم پرمقدمات قائم نہیں ہونے چاہئے،میاں صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس طرح کے مقدمات ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں جس کاآج تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا،آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ سابق صدر آصف علی زرداری پر 1998 میں کرپشن کے مقدمات بنائے گئے تھے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور سیف الرحمٰن صاحب چیئرمین نیب کے عہدے پر تعینات تھے۔
سیف الرحمٰن نے بعد ازاں یہ تسلیم کیا کہ آصف زرداری پر مقدمات سیاسی بنیاد پر بنائے گئے تھے، جب مسلم لیگ ن کی مرکز میں دوبارہ حکومت بنی تو یہ مقدمات ختم کر کے آصف زرداری کو باعزت بری کردیا گیا تھا۔یہ مقدمات طویل عرصے تک کبھی چلتے رہے اور کبھی رکتے رہے، پھر2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملنے کے بعد 2009 ء میں آصف علی زرداری صدرپاکستان بنے اور یوں یہ مقدمات کھٹائی میں پڑ گئے۔
آصف علی زرداری 5 سال تک ایوانِ صدر میں رہے اور صدارتی استثنیٰ کے مزے لیتے رہے، 2013ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔میاں نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی مفاہمتی سیاست کو آگے بڑھانے کی پالیسی اپنائی جو آج تک جاری ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران شریف برادران نے لوگوں سے جو وعدے کیے ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ وہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے ،افسوس کہ کئی دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا ،کیاہی بہترہوتاجووزیراعظم ماضی کے حقائق کے باغورجائزے کے بعد نیب والوں کی خبرلینے کی بجائے اپنے معصوموں کوکہتے کہ اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ آصف علی زرداری کوسامنے رکھیں اورتصورکریں کہ ماضی کامعصوم آگے چل کرملک کاصدربن سکتاہے توپھرحال کے معصوں کو بھی مستقبل میں کوئی اہم عہدہ مل سکتا ہے۔
جہاں تک بات احتساب وحتساب کے تذکرے سن کر عوام کے خوش فہمی میں مبتلاہونے کی ہے کہ توایسی کسی خوش فہمی کاشکارہونے کی بجائے غورکریں تووہ اورہم(عوام) بھی کہیں نہ کہیںمعصوم ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران مسلط ہونگے،یعنی ہمارے حکمران بھی معصوم اورہم عوام بھی معصوم ہیں،یایوں کہہ لیں کہ ہم بھی معصوم، تم بھی معصوم ، آئیںغور کریں کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ملک خداداد میں غریب آدمی کی ساری زندگی معمولی مقدمے میں عذاب بن جاتی ہے پر قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے احتساب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟پاکستان مسلم ریاست ہے یہاں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے جن کو یقین ہے پیداکرنے سے پالنے اورپھر موت دینے پرصرف اللہ تعالیٰ کی ذات برحق ہی قادرہے اس لئے عام عوام حکمرانوں سے عزت کی دال روٹی ،کپڑا اور چھت نہیں ظالموں کااحتساب چاہتے ہیں۔
موجودہ حالات کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کااحتساب ، کون سااحتساب اورکون کرے گااحتساب ،تو حکمرانوں پراحتساب کی اُمیدلگانے والے میرے جیسے ناسمجھ ،سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ احتساب فرمائے گاتمام ظالموں کا،یہاں توہم سب معصوم ہیں اس لئے ہم ایک دوسرے کا احتساب نہیں کرسکتے ہیں ،جولوگ نیب والوں سے پریشان ہیں وہ بالکل نہ گھبرائیں کیونکہ اللہ جانتاہے نیب والے تواُن سے کہیں زیادہ معصوم ہیں ،شائداسی معصومیت کونیب کے ترجمان نے وارثتی قباحت کہاہے ،سویہ بات کھل کرسامنے آگئی کہ ہم سب معصوم ہیں کوئی زیادہ کوئی کم ،یعنی ہم بھی معصوم ،تم بھی معصوم۔آخر میں ”ماہ رخ زیدی”کے چند اشعار جوانہوں نے معصومیت اوراُس کے صلے کے عنوان سے کہے ہیں۔
مجھکو معصومیت کا صلہ مل گیا
وہ جو بچھڑا کوئی دوسرا مل گیا
ہے مقدر بھی پتھر کی جیسے لکیر
ہم نے چاہا تھا کیا اور کیا مل گیا
دل میں مرنے کی خواہش نہیں اب ذرا
ہم کو تو جیتے جی ہی خُدا مل گیا
ہے یہ قدرت کی شانِ عطا دیکھیے
جو بھی مانگا تھا اس سے سوا مل گیا
سیدھا لے جائیگا ہم کر منزل تلک
ایسا آسان سا راستہ مل گیا
ڈھونڈتے تھے جسے شہر در شہر ہم
وہ گلی میں ہماری کھڑا مل گیا
کس سے شکوہ کریں کیا شکایت کریں
تھا جو قسمت میں لکھا ہوا مل گیا
صرف اتنی کہانی ہے میری تو بس
سبز مانگا تھا لیکن ہرا مل گیا
ساری دنیا نے چھوڑا تو کیا ماہ رخ
شاعری کا مجھے آسرا مل گیا
تحریر: امتیاز علی شاکر
مرکزی نائب صدرکالمسٹ کونسل آف پاکستان (ccp)
imtiazali470@gmail.com
043154174470