تحریر۔۔۔ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
میں نے کل رات اپنے ایک عزیز کو پشاور میں فون کیا اوران سے پوچھا سب کچھ کس طر ح سے ہے ؟ میں نے جو محسوس کیا اس کے لئے میر ے پاس کوئی زبان نہیں ،میر ے پاس کوئی الفا ظ نہیں ٹیلی ویژن سے آتے ہوئے مناظر اور میرے ٹیوٹرپر لمحہ بہ لمحہ خبروں کی ہولناکی کو بیان کر سکوں ۔ اس نے کہا ، میرے خدایا وہ بہت نوجوان اور ہینڈ سم تھے ،مرنے والوں میں بہت زیادہ بارہ سے سولہ سال کی عمروں کے درمیان تھے
میں نے فون پر ایک بیٹے کی کہانی سنی جو کہ سکول میں دہشتگردوں نے گھیرا ہوا تھا اس لڑکے کو جبڑوں اور کندھوں پر گولیا ں لگی تھیں مگر وہ بچ گیا ۔ طالبان نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر اس لئے حملہ کیا کیونکہ وہ پاکستان کو کر ب میں مبتلا کرانا چاہتا تھے لیکن جس طر ح سے کہ عظیم شاعر فیض احمد فیض نے لکھا کہ پاکستان تو دکھوں سے بھر ہوا مجموعہ ہے اوراس سے زیادہ ایک قوم کتنا دکھ برداشت کرسکتی ہے ؟
ایک غمزدہ باپ نے پشاور میں کہا”میرا بیٹا میراخواب تھا آج میں نے اپنے خواب کودفن کردیا” آج پہلی دفعہ ہم جیسے کئی نوجوانوں کو پاکستان خوابوں سے خالی اور دکھوں سے بھر اہوا ایک ملک محسوس ہوتا ہے ۔ اس والد کے لئے کوئی الفاظ نہیں جو اپنے بچے کو دفن کر تا ہے کسی بیوہ یاکسی یتیم کا دکھ بھی اس سے زیادہ نہیں ہے ۔ میرے پاس کوئی ایسی زبان نہیں ہے جوکہ اس والد کے لئے کوئی لفظ بیان کر سکے کہ جو اپنے بچے کو اُس کے وقت سے پہلے زمین میں اتارتا ہے۔
ہم ان مرنے والوں کے بار ے میں کون سی زبان استعمال کریں کیونکہ دکھ اتنا زیادہ ہے کہ برداشت ہونے کے قابل نہیں ہے ۔ لیکن دکھ کے ساتھ پاکستان میں آج ایک غصہ /ناراضگی ہے ان لوگوں پر غصہ ہے کہ جنہوں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں ان دہشت گردوں سے موڑی ہوئی تھیں اور جن کی قیمت انسانی جانوں کو ادا کرنی پڑی۔ ان پر غصہ ہے کہ جنہوں نے قتل کرنے والوں کو اجازت دے رکھی ہے اور ان کو نام لیکر ان کی مزمت کرنے سے انکار ی ہیں ان لوگوں پر غصہ ہے جنہوں نے ان معصوم لوگوں کی لاشوں پر بھی اپنا ہی فائدہ یا مصلحت دیکھی ہے غصہ ہے ناراضگی ہے اور شرمندگی ہے۔
یہ پڑھ کر بہت شرمندگی ہوئی کہ آرمی بپلک سکول پشاور میں بچوں کو فرسٹ ایڈپڑھانے والے تین معمار وں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ یہ جان کر بہت شرمندگی ہوتی ہے کہ زیادہ بچوں کو ان کے سروں پر گولیا ں مار کر قتل کیا گیا ہے۔ ہمیں ان لوگوں کے لئے ان ہم وطنوں کے لئے بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور ہم معافی بھی نہیں مانگ سکتے کہ جن کو ہم تحفظ نہ دے سکے جس طر ح سے پریس کو بتاتے ہوئے شارخ 16سال کا لڑکا اُس ہولنا ک اور ڈراونے دن کو یا د کرتا ہے
کس طر ح سے اس نے اور اس کے ہم جماعتیوں نے سکول کے بنچوں میں اپنے آپ کو چھپایا کہ جب دہشت گرد ان کو قتل کرنے کے لئے آئے اور جب ان کو یقین ہو گیاکہ انہوں نے کسی کو زندہ نہیں چھوڑا اور شارخ جس کو اس کی دونوں ٹانگوں پر گولیا ں لگی تھیں مگر اس نے اپنے منہ میں ٹائی رکھ کر اپنے آپکو چیخنے سے روکا میں شارخ کے اس دکھ کو کس زبان میں بیان کر وں کیونکہ میر ے پاس اس کے لئے الفا ظ ہی نہیں طالبان جن کو عام طور پر عربی میں طالبعلم کہا جاتاہے ۔ یہ کس طر ح کے طالبعلم ہیں جو کہ علم کی جگہ پر خون لے کر آتے ہیں؟پشاور کے اس اندھو ناک قتل عام کے بعد انڈیا نے اپنے تما م سکولوں میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
صرف دو منٹ کی خاموشی سے دکھ اور یکجہتی کا اظہار ۔ ترکی نے ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا اور آج پاکستان میں ہم صرف الفاظ ہی سے اظہار کر رہے ہیں ۔ آپ اس کو کس طر ح سے مزمت کر سکتے ہیں کہ جب ایک استاد کو ان کے شاگردوں کے سامنے جلایا گیا ہو ؟ طالبان کون ہیں جب سار ی قومی شخصیات ،اینکر ،سیاستدان اور مسطر ب نوجوان ایک ہی بات کہتے ہیں کہ یہ قابل نفرت ہیں ۔ ہم اس دہشتگر دی کے بار ے میں کتنا بیان کر سکتے ہیں کہ جس کا آج ہم سامان کر رہے ہیں کہ استقال سکول کابل میں حملہ ہو گیا جس میں چھ بچے مارے گئے اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔
عورتیں دہلی میں رات کو بسوں میں سفرکرتے ہوئے اپنی عزتیں کھو دیتی ہیں اور پشاور کے معصوم بچے ایک دوسرے کے بغیر کسی تعلق کے ایک جیسے لگتے ہیں ۔ آج پاکستان میں ہماری یادوں میں مرے ہوئے لوگوں کی یادوں کی شاعر ی ہے کیونکہ ناقابل طلافی دکھ میں دوسروں کے الفاظ میں اپنے لئے خوشی دیکھتے ہیں ۔محمد حنیف جو کہ ہمار ا ایک بے خوف لکھاری ہے اس نے منگل کو لکھا کہ ” پشاور میں مر نے والے بچوں کے ایصال ثواب کے لئے کسی کو دعا کرنے کی ضروت نہیں ہے
کیونکہ سولہ سال کے لڑکے نے کیا غلطی کی ہوگی “؟ سیاستدانوں اور آرمی کے افسران کو درخواست ہے کہ مر ے ہوئے بچوں سے پریشان نہ ہوں جب وہ دعا کے لئے ہاتھ کھڑے کریں تو وہ اپنے آپکی معافی کے لئے دعا کریں اور اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھیں کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں ۔لیکن رحمن بابا جو کہ بلبل پشاور ہیں آج میں ان کو یاد کر رہی ہوں کہ جنہوں نے کہا تھا کہ “ہم سب ایک ہیں”اگر کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو محسوس دوسرا کرتاہے۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر امتیاز علی اعوان