تحریر : عبدالرزاق
دس ماہ کی معصوم گڑیا بسمہ اس وقت اپنے لاچار، بے بس اور مجبور باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی جب پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی شاہی سواری پر وی وی آئی پی پروٹوکول کے سائبان تلے سول ہسپتال کراچی میں ٹراما سینٹر کے افتتاح کے لیے پر تول رہے تھے۔ ان کی قیمتی جان کی حفاظت کے پیش نظر ہسپتال میں جانے والا ہر رستہ عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا تھاحتیٰ کہ ہسپتال کا ایمرجنسی گیٹ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ شاہی سواری کی وجہ سے ہسپتال کے گردو نواع کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہو چکی تھی۔ اسی بے ہنگم ٹریفک میں پھنسا ایک حرماں نصیب باپ اپنی دس ماہ کی بیماربچی کو سینے سے چپکائے ہسپتال کی جانب رواں دوا ں تھا۔
موٹر سائیکل پر سوار یہ بد نصیب باپ ٹریفکجام کے عذاب کو جھیل کر کسی نہ کسی طرح ہسپتال کے دروازے پر آن پہنچا۔لیکن یہاں اسے سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے ہسپتال کے اندر جانے سے روک دیا۔ غم سے لبریز ایک باپ کی بے بسی پوری قوم دیکھ رہی تھی ۔ اس نے پولیس اہلکاروں کی بہت منت سماجت کی۔ اپنی بیمار فرشتہ صفت معصوم بچی کو بھی دکھایاکہ یہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے اور خدا کے واسطے دئیے کہ مجھے ہسپتال کے اندر جانے دو لیکن اس کی حال دہائی بیکار ثابت ہوئی۔ ایک ایسے وقت میں جب آسمان بھی اس باپ کی مجبوری دیکھ کر آنسو بہا رہا ہو گا ان پولیس اہلکاروں کا دل نہ پسیجا۔
پولیس اہلکاروں نے متاثرہ باپ کے سامنے اپنی بے بسی کارونا روتے ہوے کہا کہ انہیں اوپر سے حکم ہے کہ کوئی بھی شخص ہسپتال کے اندر داخل نہ ہونے پائے اور شاید اسی دوران وہ ننھی کلی مرجھا گئی تھی ۔اور جب موقع ملنے پر بسمہ کے باپ کو ڈاکٹر تک رسائی نصیب ہوئی تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اس کا دل چیر دیا کہ اگر یہ بچی دس منٹ پہلے ہمارے پاس پہنچ جاتی تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی ۔بسمہ تب تک دم توڑ چکی تھی۔ وہ حکمرانوں کے جاہ وجلال کی نذر ہو چکی تھی۔ بسمہ کی روح وقت کے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ آپ کو توہم نے اپنی جانوں کی حفاطت کے لیے منتخب کیا ہے پھر آپ لوگوں نے ہی کیوں میری جان لے لی۔
سوچنے کی بات ہے کہ بسمہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی زینت بن گیا لیکن پروٹو کول کی مشق کے دوران نہ جانے کتنے ماں باپ اپنی اپنی بسمہ کو محض اس لئے کھو دیتے ہیں کہ جب وہ بیماری کی حالت میں اپنے جگر گوشہ کو ہسپتال لے جا رہے ہوتے ہیں تو سڑک پر حکومتی عہدہ داروں کے قافلہ کی وجہ سے رکاوٹوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہوتا ہے کہ وہ بر وقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اور بے بسی کی عملی تصویر بن کر عمر بھرکے لئے دکھ و الم کی داستان بن جاتے ہیں۔بسمہ کے ماں باپ کے لیے بلکہ یوں کہیے کہ ہر درد مند دل رکھنے والے شخص کے لیے غم کی یہ گھڑی اس وقت مذید بھاری ہو گئی جب حکومتی ذمہ دار ان نے اس واقعہ کے تناظرمیں غیر منظقی اور بے سروپا بیانات داغنا شروع کر دئیے۔ پیپلزپارٹی کے سیئر رہنما نثار کھوڑو نے کہا کہ ہمیں بلاول بھٹو کی زندگی سب سے مقدم ہے ۔ یہ بیان کسی تشریح کا محتاج نہیں ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے نزدیک عام لوگوں کی زندگیوں کی کیا اہمیت ہے اور ان کے اپنی نوعیت کے اس منفرد بیان سے واضحدکھائی دے رہا ہے کہ ان کو عوام سے کس قدر لگاو اور محبت ہے ۔ایک ایسا موقع جس پر پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں لیکن یہ حاشیہ بردار اور خوشامدی عوامی جذبات سے بے پرواہ اپنی اعلیٰ قیادت کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اس کا عملی مظاہرہ کسی نے دیکھنا ہو تو پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے بیان حاضر خدمت ہیں۔ پیپلز پارٹی کی زیرک رہنما شہلا رضا نے بھی اس واقعہ سے متعلق بات چیت کرتے ہوے عجیب و غریب رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے اس واقعہ کے ضمن میں فرمایا کہ تقریب میں میڈیا کو مدعو نہیں کیا گیا اس لیے میڈیا بلبلا رہا ہے اور اس واقعہ کو اچھال رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی ایک اور اہم رہنما نادیہ گبول جنہوں نے نہایت فراخدلی کا مظاہر کیا اور متاثرہ خاندان کے زخموں پر مرہم رکھنے ان کے گھر پہنچ گئیں لیکن وہاں میڈیا سے جو انہوں نے گفتگو کی وہ کسی بھی صورت قابل ستائش نہ تھی ۔ انہوں نے شگوفہ چھوڑا کہ اس ڈاکٹر سے تحقیقات کی جائے گی جس نے یہ کہا ہے کہ اگر بچی دس منٹ پہلی آ جاتی تو بچ سکتی تھی یوں انہوں نے ڈاکٹر کی باز پرس کا عندیہ دیا۔فہم و فراست سے عاری ان سیاست دانوں کو کون سمجھائے کہ ڈاکٹر کے اس بیان میں کونسا ایسا راز پو شیدہ ہے جو تحقیقات کے ذریعہ افشا ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی کاروائی کرنی ہے تو ان لوگوں کے خلاف کیجیے جو اس حادثہ کا پیش خیمہ ہیں۔ کوئی ایکشن لینا ہے تو ان کے خلاف لیجیے جن کے سر اس معصوم بچی کا خون ہے ۔ان بے سروپا بیانات کی یلغار میں میری آنکھوں کے سامنے تھر کے وہ معصوم بچے گھوم رہے ہیں جو صوبائی حکومت کی بے پرواہی کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پردرجنوں کی تعداد میں موت کے منہ میں چلے جاتے تھے اور تب بھی ہماری سماعتوں سے اسی طرح کے غیر منطقی بیانات ٹکراتے تھے ۔ جس حکومت کو سینکڑوں بچوں کے سسک سسک کر اور بلک بلک کر مرنے کی پرواہ نہ تھی ان کی نظر میں ایک آدھ معصوم پھول کے مسلے جانے کی کیا حیثیت ہے۔
ان کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ ایک کمرہ پر محیط مکان میں رہنے والا غریب جس پر ایسے بے حس حکمرانوں کی وجہ سے پہلے ہی زندگی کا دائرہ تنگ ہے اور وہ بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے اس کی پھول سی بچی زندگی کی بازی ہار جائے ۔ اس غریب کی غربت کا مذاق اڑانے میں تو وزیر صحت بھی پیچھے نہیں رہے۔ موصوف فرماتے ہیں اس معمولی واقعہ کو خواہ مخواہ ایشو نہ بنایا جائے۔
وزیر صحت سندھ کا یہ بیان بھی متاثرہ خاندان کے دل پر چھری چلانے کے مترادف ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جہاں عوامی نمائندوں کی حفاظت ضروری ہے وہیں عام لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار بھی حکمران ہی ہیں اس لیے ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس سے عوامی نمائندوں کی موومنٹ کے دوران عام لوگوں کی زندگی اجیرن نہ بنے۔
تحریر : عبدالرزاق
03360060895